کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 12
پہلی قسم:
دو قراءات تلفظ میں تو مختلف ہیں،لیکن دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ اس کی مزید دو صورتیں ہیں:
(1) بعض کاتعلق لغات کے اختلاف سے ہے،مثلاً:﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ﴾ (الفاتحۃ:6)
اس میں سین اور صاد کے ساتھ دو قراء تیں ہیں،لیکن دونوں کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اسی طرح﴿وَ یَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ (النساء:37) یہاں﴿بِالْبُخْل﴾ میں دو قراء تیں ہیں؛ ایک باء کی پیش اور خائے ساکن کے ساتھ اور دوسری باء اور خاء کی فتح کے ساتھ،لیکن دونوں کے معنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اسی طرح﴿یَحْسَبُ﴾ (الہمزۃ:3) میں سین کی فتح (زبر) اور کسرہ (زیر) کے ساتھ اور﴿مِرْفَقًا﴾ (الکہف:16) میں ایک قراء ت میم کے کسرہ (زیر)اورفاء کی فتح (زبر)کے ساتھ اور دوسری میم کی زبر اور فاء کی زیر کے ساتھ ہے،لیکن دونوں قراءات کا مفہوم ایک ہی ہے۔ قراء ت کی اس قسم کو قرآن میں نازل کرنے کا مقصد اور حکمت مختلف اہلِ لغات کے لیے تلاوت میں آسانی بہم پہنچانا تھا۔
(2) دوسری صورت ان قراءات کی ہے جن میں لغات کا اختلاف تو نہیں ہے،البتہ فصیح عربی زبان میں انہیں ایک سے زیادہ وجوہ (طریقوں) پر پڑھا جا سکتا ہے،جیسا کہ:
﴿نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُ﴾ (الشعراء:193) یہاں ’’نَزَلَ‘‘ میں زاء کی تخفیف،’’الرُّوْحُ‘‘ میں حاء کی رفع(پیش)اور ’’الْأَمِیْنُ‘‘ میں نون کی رفع(پیش)کے ساتھ بھی قراء ت جائز ہے اور ’’نَزَلَ‘‘ میں زاء کی تشدید،’’الرُّوْحَ‘‘ میں حاء کی نصب (زبر) اور ’’الْأَمِیْنَ‘‘ میں نون کی فتح (زبر) کے ساتھ بھی جائز ہے۔اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو کہ
﴿أَوَ مَنْ یُّنَشَّؤُا فِی الْحِلْیَۃِ﴾ (الزخرف:18) میں لفط ’’یُّنَشَّؤُا‘‘ کو یاء کے ضمہ (پیش)،نون کے فتح (زبر) اور شین کی شد کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اوریاء کی فتح،نون