کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 113
(۱۰)۔ دسویں مثال جو گولڈ زیہر نے اس حوالہ سے پیش کی ہے،وہ سورۃ یوسف کی یہ آیت مبارکہ ہے:
﴿حَتَّی إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوا جَائَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَشَائُ وَلَا یُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِینَ﴾ (یوسف:110) [1]
گولڈ زیہر کی بد دیانتی کا جائزہ:
واضح رہے کہ اس آیت میں تین قراءات ہیں:
پہلی:’’کُذِّبُوا‘‘ کاف کے پیش اور ذال مکسورہ کے شد کے ساتھ اور دوسری:’’کُذِبُوا‘‘ کاف کی پیش اور ذال مکسورہ کی تحفیف(بغیر شد) کے ساتھ۔ اور تیسری:’’کَذَبُوا‘‘ کاف کی زبر اور ذال کی تخفیف کے ساتھ۔
ان میں سے پہلی دو قراءات متواتر ہیں اور تیسری شاذ اور ناقابل اعتبار ہے۔ نیز قدیم اور معاصر علماء نے بغیر کسی حیرت و پریشانی کے ان قراءات کی ایسی توجیہات و تعبیرات بیان کر دیں ہیں کہ کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔
پہلی قراء ۃ ’’کُذِّبُوا‘‘ کی توجیہ:
مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ ’’وَظَنُّوا‘‘ میں ضمیرکا مرجع لفظ ’’الرُّسُل‘‘ ہے۔ اور ظن یہاں علم اور یقین کے معنی میں ہے۔اسی طرح ’’أَنَّہُمْ‘‘ اور ’’کُذِّبُوا‘‘ میں بھی ضمیرکا مرجع لفظ ’’الرُّسُلُ‘‘ ہی ہے۔اس لحاظ سے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب رسولوں کو یقین ہو گیا کہ ان کی امتوں نے ان کے دعوائے رسالت اور تعلیمات الٰہی کو جھٹلا دیا ہے اور وہ ان کے ایمان کی طرف سے بالکل نا امید ہو گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ان اقوام میں اب کوئی خیر باقی نہیں
[1] اور اس کے ضمن میں گولڈ زیہر نے لکھا ہے کہ یہ آیت بھی مفسرین کے لیے سخت حیرت پریشانی کا باعث بنی۔مشکل اور پریشانی فعل معروف کے ساتھ ’’قَدْ کَذَبُوا‘‘ کے الفاظ میں تھی۔ جس کا معنی یہ ہے کہ رسولوں نے مایوسی کے عالم میں سمجھا کہ ان سے جھوٹ صادر ہوا ہے۔ص: 41.