کتاب: قراءت قرآنیہ مستشرقین اور ملحدین کی نظر میں - صفحہ 107
دور میں ان گنت تعداد کو اپنے جلو میں لیے ہوئے یہ سلسلہ ہم تک پہنچا۔[1] اس کے بعد گولڈزیہر نے اس آیت میں مزید تین قراءات ذکر کی ہیں: پہلی قراء ۃ:تاء کی زبر،نون ساکن،اس کے بعد سین کی زبر اور الف کے ساتھ ’’تنساہا‘‘ ہے۔ یہاں بھی گولڈ زیہر لغزش کا شکار ہوئے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ قراء ۃ اس طرح نہیں،بلکہ سین کے بعد حذفِ الف کے ساتھ ’’تَنْسَہا‘‘ ہے۔کیونکہ اس کا عطف ’’نَنْسَخْ‘‘ کے اوپر ہے اور ’’نَنْسَخْ‘‘ حرف جازم کی وجہ سے مجزوم ہے۔اور دوسری اہم ترین حقیقت کہ یہ قراء ۃ شاذ ہے،کسی بھی معین اورثقہ قاری نے اسے روایت نہیں کیا،نہ قرائے عشرۃ میں سے کسی نے اور نہ ہی قراءات شاذۃ کے چار قراء میں سے ہی کسی نے اس کو روایت کیا ہے۔امت نے اپنی پوری تاریخ میں ایسی کسی قراء ۃ کو قرآن قرار نہیں دیا۔ دوسری قراء ۃ:’’نَنْسَاہا‘‘ نون کی زبر،پھر نون ساکنہ،اس کے بعد سین کی زبر اورہمزہ ساکنہ کے ساتھ،اس کا مصدر ’’إنساء‘‘ ہے۔اس کا معنی:موخر اور ملتوی کرنا ہے۔ اور یہ ’’أَوْ نُنْسِہَا‘‘ کی طرح متواتر قراء ۃ ہے۔ تیسری قراء ۃ:’’نَنْسَاہا‘‘ یہ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ یہ قراء ۃ لفظی اور معنوی اعتبار سے بالکل دوسری قراء ۃکی طرح ہے۔اس کا مصدر ’’إنساء‘‘ ہے،یہ بھی تاخیراور التوا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے،فرق صرف یہ ہے کہ یہاں ہمزہ کو تخفیف (آسانی) کے لیے الف سے بدل دیا گیا ہے۔ اور گولڈ زیہرکا کہنا کہ ’’اس قراء ۃ میں نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے۔‘‘فاش غلطی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا مصدر نسیان نہیں ہے۔ اگر اس کا مصدر نسیان ہوتا تو پھر اسے فعل مجزوم پر عطف کی وجہ سے حذف الف کے ساتھ ’’نَسْأَہَا‘‘ ہونا چاہیے
[1] طرفہ تماشادیکھئے!ایک طرف یہ یہودی مستشرق ایک انتہائی شاذ اور خود ساختہ قراء ۃ کو بعض ثقہ قراء کی قراء ۃ قرار دے کر حقائق کو مسخ کرنے کا کام کر رہا ہے تو دوسری طرف ایک متواتر اور قطعی ذرائع سے ثابت قراء ۃ کو بعض علماء کی قراء ۃ کہہ کر قارئین کو دھوکہ دینے کی سعی مذموم کر رہا ہے.