کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 96
روپے واپس لینے کی صورت میں مادی طور پر خسارہ میں رہتا ہے۔ بعض لوگ اس خسارہ کی تلافی کی خاطر، قرض خواہ کو، دی ہوئی رقم سے زیادہ رقم لینے کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور اس اضافی رقم کا تعین قرض کی واپسی کی مدت کے تناسب سے پہلے ہی سے کر لیا جاتا ہے۔ تبصرہ: توفیقِ الٰہی سے اس بارے میں گفتگو درج ذیل دونکتوںکے ضمن میں کی جارہی ہے: ۱: قرض کی روح ایثار ہے۔ قرض خواہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کے لیے اپنے مال کے حقِ استعمال سے رضا کارانہ طور پر دست بردار ہو جاتا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر اپنے آپ کو اس بات کے لیے بھی تیار کر لیتا ہے، کہ افراطِ زر کی بنا پر بطورِ قرض دی ہوئی رقم کی قوت خرید کی کمی کو بھی وہ برداشت کرے گا۔ اس سارے طرزِ عمل میں اس کا مطمح نظر رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔ ۲: اگر قرض خواہ مذکورہ بالا بات سے بھی مطمئن نہ ہو اور افراطِ زَر کی بنا پر بطورِ قرض دی ہوئی رقم کی قوتِ خرید میں کمی کی تلافی کے لیے اصل رقم سے زیادہ کے تقاضا پر اصرار کرے، تو اس سے کہا جائے گا، کہ عام حالات میں قرض دینا مستحب ہوتاہے، لیکن قرض کی بنا پر اصل رقم سے زیادہ لینا انتہائی سنگین گناہ، اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلانِ جنگ کرنا اور حرام ہے[1]، لہٰذا آپ اس مستحب کام کو چھوڑئیے، جو کہ آپ کے لیے حرام کے ارتکاب کا سبب بنے۔ واللّٰه ولي التوفیق۔
[1] سود کی حرمت اور سنگینی کے لیے ملاحظہ ہو: راقم السطور کی کتاب التدابیر الواقیۃ من الربا، ص۴۷۔۵۹۔