کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 95
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ سَمْحَ الْبَیْعِ، سَمْحَ الشَّرَائِ، سَمْحَ الْقَضَائِ۔‘‘ [1] ’’ یقینا اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور ادائیگی میں آسانی کرنے والے سے محبت کرتے ہیں۔ ‘‘ اللہ اکبر!خرید و فروخت اور ادائیگی میں آسانی کرنے والے کی شان و عظمت کس قدر بلند و بالا ہے، کہ کائنات کے خالق، مالک اور رازق اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں۔ اے اللہ کریم!ہمیں ایسے خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائیے۔ آمین! اور بلاشک و شبہ بروقت قرض ادا نہ کرنے والا ادائیگی میں آسانی کی بجائے پیچیدگی اور پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں ایسے لوگوں میں شامل نہ فرمائیں۔ إنہ سمیع مجیب۔ ایک اشکال اور اس کا حل: افراطِ زر کی صورت میں قرض کی واپسی کے لیے معیار قرض کی ادائیگی کے حوالے سے اُبھرنے والے مسائل میں سے ایک افراطِ زَر(Inflation)کا ہے۔ بطورِ قرض دی ہوئی رقم کی قوتِ خرید عام طور پر کم ہوتی رہتی ہے۔ ایک لاکھ روپے سے جس قدر اشیاء آج خریدی جا سکتی ہیں، ان کی مقدار گزشتہ سال ایک لاکھ روپے کے عوض خریدی جانے والی چیزوں کے مقابلہ میں کافی کم ہے۔ اس طرح گزشتہ سال ایک لاکھ روپے قرض دینے والا شخص آج ایک لاکھ
[1] جامع الترمذي، أبواب البیوع، باب، رقم الحدیث ۱۳۳۴، ۴؍ ۴۵۷؛ والمستدرک علی الصحیحین،کتاب البیوع، ۲؍۵۶۔ امام حاکم نے اس کو [صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ شیخ البانی نے بھی اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍۵۶ ؛ والتلخیص ۲؍۵۶ ؛ و صحیح سنن الترمذی ۲؍۳۴)۔