کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 93
۲:اللہ تعالیٰ کی مدد کا پانا: ۳:اللہ تعالیٰ کی طرف سے محافظ کا ملنا: ۴:رزق کا میسر آنا: امام احمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ وہ قرض لیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا:’’ مَالَکَ وَلِلدَّیْن؟ ‘‘ ’’ آپ کو قرض کی کیا ضرورت ہے؟ ‘‘ تو انہوں نے جواب دیا: ’’ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَالَ:’’ مَا مِنْ عَبْدٍ کَانَتْ لَہُ نِیَّۃٌ فِيْ أَدَائِ دَیْنِہِ إِلَّا کَانَ لَہُ مِنَ اللّٰہِ عَزَّوَجل عون۔‘‘ فَأَنَا أَلْتَمِسُ ذٰلِکَ الْعَوْنَ۔ ‘‘[1] ’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی بندہ ایسا نہیں، کہ اس کی قرض ادا کرنے کی نیت ہو، مگر اللہ عزوجل کی طرف سے اس کی مدد ہوتی ہے۔ ‘‘ میں تو اسی مدد کی جستجو میں[قرض لیتی]ہوں۔ ‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ’’ کَانَ مَعَہُ مِنَ اللّٰہِ عَوْنٌ وَحَافِظٌ۔ ‘‘[2]
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۴۶۷۹، ۴۱؍ ۲۱۳۔ ۲۱۴۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح لغیرہ] اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۲؍ ۳۴۹؛ وھامش المسند ۴۱؍ ۲۱۴)۔ [2] المسند، جزء من رقم الحدیث ۲۶۱۲۷، ۴۳؍ ۲۷۶۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۴۳؍ ۲۲۶)۔