کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 88
ادا کرو۔ ‘‘
علامہ سیوطی آیت شریفہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’ وَفِيْ الْآیَۃِ وَجُوْبُ رَدِّ وَدِیْعَۃٍ مِنْ أَمَانَۃٍ وَقِرَاضٍ وَقَرْضٍ وَغَیْرِہٖ ذٰلِکَ۔ ‘‘[1]
’’ آیت میں امانت، مضاربت اور قرض وغیرہ کے طور پر لی ہوئی رقم کی واپسی کی فرضیت[کا ثبوت]ہے۔ ‘‘
امام بخاری نے ایک باب کا عنوان درج ذیل تحریر کیا ہے:
[بَابُ أَدَائِ الدُّیُوْن وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ:إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا [2]
[قرضوں کی ادائیگی کے متعلق باب اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:(بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں حکم دیتے ہیں، کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کردو)۔]
حافظ ابن ابی شیبہ نے طلق بن معاویہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’ ایک شخص کے ذمے میرے تین سو درہم تھے، میں اس کا معاملہ [3] شریح [4] کے پاس لے گیا، تو انہوں نے اس شخص سے کہا:
إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
[1] الإکلیل في استنباط التنزیل ص ۹۴۔
[2] صحیح البخاري، کتاب الاستقراض، ۵؍ ۵۵۔
[3] یعنی اس شخص کی طرف سے رقم کی عدم ادائیگی کی شکایت۔
[4] شریح: شریح بن حارث صدر اسلام کے مشہور ترین قاضیوں میں سے ایک ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا قاضی مقرر کیا تھا۔ کہا گیا ہے، کہ وہ ساٹھ سال تک کوفہ کے قاضی رہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے وقت کا عرب کا سب سے بڑا قاضی کہاتھا۔ ۷۸ھ میں وفات پائی۔(ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۴؍ ۱۰۰۔ ۱۰۶)۔