کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 78
اس پر انہوں[یعنی اللہ تعالیٰ]نے فرمایا:’’ میرے بندے سے درگزر کردو۔ ‘‘ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:’’ میں نے[بھی]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح بیان کرتے ہوئے سنا۔ ‘‘ [خوش حال سے قبول کرنے اور تنگ دست سے درگزر کرنے]سے مراد یہ ہے، کہ واپسی کے لیے مقروض کے پاس جو موجود ہوتا، وہ لے لیتا اور جو اس کے پاس میسر نہ ہوپاتا، اس کو معاف کردیتا۔ [1] امام ابن حبان نے اسی حدیث کے قریب قریب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [ذِکْرُ رِجَائِ تَجَاوُزِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا عَمَّنْ تَجَاوَزَ عَنِ الْمُعْسِرِ][2] [تنگ دست سے درگزر کرنے والے کے لیے اللہ جل و علا کے درگزر کرنے کی امید کا ذکر] ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ فَغُفِرَ لَہُ۔ ‘‘[3] ’’ پس اس کی مغفرت کردی گئی۔ ‘‘ ایک تیسری روایت میں ہے:
[1] ملاحظہ ہو: شرح النووي ۱۰؍ ۲۲۵۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب البیوع، باب الدیون، ۱۱؍ ۴۲۶۔ [3] ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب الاستقراض، باب حسن التقاضي، ۲۳۹۱، ۵؍ ۵۸ ؛ وصحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر، رقم الحدیث ۲۸؍ ۱۵۶۰، ۳؍ ۱۱۹۵۔