کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 77
’’ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر تمہارے واجب الذمہ میرا مال، تجھ پر صدقہ ہے۔ ‘‘ ’’اور وہ[قرض کے متعلق]وثیقہ پھاڑ دیتا ہے۔ ‘‘ ۷:گناہوں کی معافی: ۸:جنت میں داخلہ: امام مسلم نے ربعی بن خراش سے روایت کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’حذیفہ اور ابو مسعود رضی اللہ عنہما اکٹھے ہوئے، تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:‘‘ ’’ رَجُلٌ لَقِيَ رَبَّہُ، فَقَالَ:’’ مَا عَمِلْتَ؟ ‘‘ قَالَ:’’ مَا عَمِلْتُ مِنَ الْخَیْرِ، إِلَّا أَنِّيْ کُنْتُ رَجُلًا ذَا مَالٍ، فَکُنْتُ أُطَالِبُ بِہِ النَّاسَ۔ فَکُنْتُ أَقْبَلُ الْمَیْسُوْرَ، وَأَتَجَاوَزُ عَنِ الْمَعْسُوْرِ۔ ‘‘ فَقَالَ:’’ تَجَاوَزُوْا عَنْ عَبْدِيْ۔ ‘‘ قَالَ أَبُوْ مَسْعُوْدٍ:’’ ھٰکَذَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَقُوْلُ۔ ‘‘[1] ’’ ایک شخص کی اپنے رب تعالیٰ سے ملاقات ہوئی، تو انہوں[اللہ تعالیٰ]نے پوچھا:’’ تونے کیا عمل کیا؟ ‘‘ اس نے عرض کیا:’’ میں نے تو کوئی نیکی نہیں کی، سوائے اس کے، کہ میں مال دار تھا اور لوگوں سے اپنے حق کی واپسی کا تقاضا کیا کرتا تھا، تو خوشحال سے قبول کیا کرتا تھا اور تنگ دست سے درگزر کیا کرتا تھا۔ ‘‘
[1] صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب فضل إنظار المعسر، رقم الحدیث ۲۷(۱۵۶۰)، ۳؍ ۱۱۹۵۔ نیز ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب من أنظر موسراً، رقم الحدیث ۲۰۷۷، ۴؍ ۳۰۷۔