کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 75
’’ نَدَبَ إِلیٰ أَنْ یَتَصَدَّقُوْا بِرُؤُوْسِ أَمْوَالِھِمْ کُلًّا أَوْ بَعْضًا عَلیٰ غُرَمَائِھِمْ الْمُعْسِرِیْنَ۔ ‘‘[1]
’’ انہوں[اللہ تعالیٰ]نے قرض خواہوں کو اس بات کی ترغیب دی ہے، کہ وہ اپنے تنگ دست مقروضوں کے ذمہ اپنے پورے مالوں کو یا ان کے کچھ حصہ کو صدقہ کردیں۔ ‘‘
۲:دعاؤں کی قبولیت:
۳:مصیبت سے نجات:
امام احمد نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ مَنْ أَرَادَ أَنْ تُسْتَجَابَ دَعْوَتُہُ وَتَنْکَشِفُ کُرْبَتَہُ فَلْیُفَرِّجْ عَنْ مُعْسِرٍ۔ ‘‘[2]
’’ جو شخص چاہے، کہ اس کی دعا قبول کی جائے اور مصیبت دور کی جائے، وہ تنگدست پر آسانی کرے۔ ‘‘
۴:روزِ محشر کی مصیبتوں سے نجات:
[1] تفسیر أبي السعود ۱؍ ۲۶۸۔ امام قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ نَدَبَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِھٰذِہِ الْأَلْفَاظِ إِلَی الصَّدَقَۃِ عَلَی الْمُعْسِرِ، وَجَعَلَ ذٰلِکَ خَیْرًا مِنْ إِنْظَارِہِ۔ ‘‘[ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ تنگی والے پر صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اور اس کو مہلت دینے سے بہتر قرار دیا ہے۔](تفسیر القرطبي ۳؍ ۳۷۴)۔
[2] منقول از: مجمع الزوائد، کتاب البیوع، باب من فرّج عن معسر، أو أنْظَرَہ، أو ترک الغارم، ۴؍ ۱۳۴۔ حافظ ہیثمی اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ اس کو طبرانی نے [المعجم] الأوسط میں روایت کیا ہے اور اس کے راویان صحیح کے راویان ہیں۔ ‘‘(المرجع السابق ۴؍ ۱۳۴)۔