کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 73
یعنی(رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا)جملہ کے معنی میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں دعا ہے، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی صفت والے بندے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائیں۔ اور دوسرا احتمال یہ ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں، کہ اس قسم کے شخص پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرمایا۔ امام بخاری نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ السَّہُوْلَۃِ وَالسَّمَاحَۃِ فِيْ الشِّرَائِ وَالْبَیْعِ، وَمَنْ طَلَبَ حَقًّا فَلْیَطْلُبْہُ فِيْ عَفَافٍ۔][1] [خرید و فروخت میں آسانی اور سہولت کرنے کے متعلق باب اور جو شخص حق کا مطالبہ کرے وہ[ناجائز طریقے سے]بچتے ہوئے کرے۔] امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: [ذِکْرُ تَرَحُّمِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَلَا عَلَی الْمُسَامِحِ فِيْ الْبَیْعِ وَالشِّرَائِ وَالْقَبْضِ وَالإِْعْطَائِ۔][2] ۶:تقاضا میں آسانی دخولِ جنت کا ایک سبب: امام نسائی نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَدْخَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ رَجُلًا کَانَ سَھْلًا مُشْتَرِیًا، وَبَائِعًا، وَقَاضِیًا، وَمُقْتَضِیًا الْجَنَّۃَ۔‘‘[3] ’’ اللہ عزوجل نے خریدنے، بیچنے،[کسی کا حق]ادا کرنے اور[اپنا حق]طلب کرنے میں آسانی کرنے والے شخص کو جنت میں داخل کردیا۔ ‘‘
[1] صحیح البخاري، کتاب البیوع، ۴؍ ۳۰۶۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب البیوع، ۱۱؍ ۲۶۷۔ [3] سنن النسائي، کتاب البیوع، حسن المعاملۃ والرفق في المطالبۃ، ۷؍ ۳۱۸۔ ۳۱۹۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائی ۳؍ ۹۷۱)۔