کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 57
’’ أُوْلٰئِکَ خِیَارُ عِبَادِ اللّٰہِ عِنْدَ اللّٰہِ الْمُوْفُوْنَ الْمُطَیِّبُوْنَ۔ ‘‘[1] [یہ لوگ جو کہ عمدگی سے پورا حق ادا کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے بہترین بندے ہیں۔] اس حدیث شریف میں یہ بات واضح ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے ذخیرہ شدہ کھجوروں کا ایک وسق بطورِ قرض لیا۔ علاوہ ازیںماپ اور وزن کی جانے والی چیزوں میں قرض کے لینے دینے کے جواز پر علمائے اُمت کا اجماع بھی ہے۔ امام ابن قدامہ نے لکھا ہے: ’’ یَجُوْزُ قَرْضُ الْمَکِیْلِ بِغَیْرِ خَلَافٍ۔ ‘‘ قَالَ ابْنُ الْمُنْذِرُ:’’ أَجْمَعَ کُلُّ مَنْ نَحْفَظُ عَنْہُ مِنْ أَھْلِ الْعِلْمِ أَنَّ اسْتِقْرَاضَ مَالَہُ مِثْلٌ مِنَ الْمَکِیْلِ وَالْمَوْزُوْنِ وَالْأَطْعَمِۃِ جَائِزٌ۔ ‘‘[2] [ماپ کی جانے والی چیزوں میں قرض[لینا دینا]بلا اختلاف جائز ہے۔] ابن منذر نے فرمایا: [وہ سب اہل علم جن سے ہم علم لیتے ہیں، اس بات پر متفق ہیں، کہ ماپ اور وزن کی جانے والی اور اناج میں سے وہ تمام چیزیں، جن کی مثل ہو،
[1] المسند، رقم الحدیث ۲۶۳۱۲، ۴۳؍۳۳۷۔ حافظ ہیثمی نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے: ’’ اس کو احمد اور بزار نے روایت کیا ہے اور احمد(کی روایت کردہ حدیث) کی [اسناد صحیح] ہے۔ ‘‘(مجمع الزوائد ۴؍ ۱۴۰) ؛ نیز ملاحظہ ہو: کشف الأستار عن زوائد البزار علی الکتب الستۃ، کتاب البیوع، باب فیمن اقترض شیئًا فردّ أفضل منہ، ۴؍۱۰۵۔ شیخ البانی اور شیخ الارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [اسناد کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، المجلدالسادس، القسم الأول؍ ۳۹۳؛ وھامش المسند ۴۳؍ ۳۳۹)۔ [2] المغني ۴؍ ۳۵۰۔