کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 52
ہوں۔ اس شرط کو نظر انداز کرکے قرض لینا مناسب نہیں۔
اسی سلسلے میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ لَا أُحِبُّ أَنْ یَتَحَمَّلَ بِأَمَانَتِہِ مَا لَیْسَ عِنْدَہُ۔ ‘‘[1]
’’ میں پسند نہیں کرتا، کہ وہ اپنی امانت کے ساتھ اس چیز کا بوجھ اُٹھائے، جس کی اس میں استطاعت نہ ہو۔]
امام ابن قدامہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
’’ مَا لَا یَقْدِرُ عَلیٰ وَفَائِہِ۔ ‘‘[2]
[یعنی[مستقبل میں]اس کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو۔]
گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ عام حالات میں قرض لینا شرعی طور پر ناپسندیدہ ہے، البتہ معقول وجہ اور جائز سبب کی موجودگی میں، ادائیگی کے پختہ اور سچے ارادے اور مستقبل میں امکانات پائے جانے کی صورت میں قرض لینے میں کوئی حرج نہیں۔واللہ تعالیٰ أعلم۔
[1] منقول از: المغني ۴؍ ۳۴۸۔
علاوہ ازیں امام احمد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے،کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ لَأَنْ یَلْبَسَ أَحَدُکُمْ ثَوْبًا مِنْ رِقَاعٍ شَتَّی خَیْرٌ لَہُ مِنْ أَنْ یَأْخُذَ بِأَمَانَتِہِ أَوْ فِيْ أَمَانَتِہِ مَا لَیْسَ عِنْدَہُ۔ ‘‘ [ تم میں سے کسی ایک کے لیے متفرق چیتھڑوں والے کپڑے پہننا اس بات سے بہتر ہے، کہ وہ اپنی امانت کے ساتھ [یعنی بطورِ قرض] وہ لے، جو اس کے پاس نہ ہو [یعنی مستقبل میں ادائیگی کے لیے اس کے پاس امکانات نہ ہوں۔]۔(المسند جزء من رقم الحدیث ۱۳۵۵۹ ۴؍۱۸۳)۔ حافظ ہیثمی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں، کہ اس میں ایک راوی جابر بن زید ہیں، جو الجعفی نہیں، اور ان کے حالات مجھے نہیں ملے اور اس کے باقی راویان ثقہ ہیں۔(ملاحظہ ہو : مجمع الزوائد ۴؍۱۲۶)؛ شیخ ارناؤط اور ان کے رفقاء نے اس کی [اسناد کو ضعیف ] قرار دیا ہے۔(ہامش المسند ۲۱؍۱۸۳)۔
[2] المغني ۴؍۳۴۸۔