کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 51
حافظ رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں: ’’ وَفِيْ الْحَدِیْثِ اَلتَّرْغِیْبُ فِيْ تَحْسِیْنِ النِیَّۃِ، وَالتَّرْھِیْبُ مِنْ ضِدِّ ذٰلِکَ۔ ‘‘[1] [اور حدیث میں نیت کو درست کرنے کی ترغیب اور اس کی ضد سے ڈرایا گیا ہے۔] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لینے والے بدنیت کے برے انجام کے بارے میں ایک اور بات بھی بتلائی ہے۔ امام طبرانی نے میمون کردی کے حوالے سے ان کے والد رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ أَیُّمَا رَجُلٍ اسْتَدَانَ دَیْنًا، لَا یُرِیْدُ أَنْ یُؤَدِّيَ إِلیٰ صَاحِبِہِ، حَتَّی أَخَذَ مَا لَہُ، وَلَمْ یُؤَدِّ إِلَیْہِ دَیْنَہُ، لَقِيَ اللّٰہَ، وَھُوَ سَارِقٌ۔‘‘[2] [جس شخص نے قرض لیا اور اس کا ارادہ حق دار کا حق ادا کرنے کا نہیں، اس نے مال لے لیا، مگر ادا نہ کیا، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بطورِ چور ملاقات کرے گا۔] (۳)مستقبل میں ادائیگی کے امکانات: جائز مقاصد کے لیے ادائیگی کی نیت سے قرض لیتے ہوئے اس بات کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے، کہ مقروض کے لیے مستقبل میں ادائیگی کے امکانات
[1] فتح الباری ۵۴؍۵۔ [2] منقول از: مجمع الزوائد و منبع الفوائد، کتاب البیوع، باب فیمن نوی أن لا یقضي دینہ، ۴؍۱۴۲۔حافظ ہیثمی اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ اس کو طبرانی نے [المعجم] الأوسط اور الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کے [راویانِ ثقہ] ہیں۔(المرجع السابق ۴؍ ۱۳۲)۔