کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 49
رکھ دیں گے، تو اس کی نیکیاں اس کی برائیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں گی۔ پس وہ ان کی رحمت سے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ ‘‘ اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے، کہ معقول اغراض کے لیے قرض لینا قابل مواخذہ نہیں، البتہ غیر معقول مقاصد کے لیے قرض لینے پر روزِ قیامت باز پرس ہوگی۔ ایک اور حدیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے، کہ ناپسندیدہ غرض کے لیے قرض لینے والا اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہوجاتا ہے۔ امام حاکم نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ إِنَّ اللّٰہَ مَعَ الدَّائِنِ حَتَّی یُقْضَی دَیْنُہُ، مَا لَمْ یَکُنْ فِیْمَا یَکْرَھُہُ اللّٰہُ۔ ‘‘[1] [’’ اگر قرض اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ مقصد کی خاطر نہ ہو، تو ادائیگی قرض تک اللہ تعالیٰ مقروض کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ‘‘] قابل افسوس بات یہ ہے، کہ بعض مسلمان خواتین وحضرات شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے مواقع پر اسراف و تبذیر [2] کے لیے قرض لیتے ہیں۔ اس طرح قرض لینے کی قباحت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ آمین۔ (۲)ادائیگی کی سچی نیت: قرض لینے کے جواز کی دوسری شرط یہ ہے، کہ قرض لینے والے کی واپسی
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍ ۲۳۔ امام حاکم نے اس کی [اسناد کو صحیح] اور حافظ ذہبی نے [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍ ۲۳ ؛ والتلخیص ۲؍ ۲۳)۔ حافظ ابن حجر نے اس کی [اسناد کو حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: فتح الباري ۵؍ ۵۴)۔ [2] اسراف سے مراد جائز کاموں میں راہِ اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے مال خرچ کرنا اور تبذیر سے مراد ناجائز جگہوں پر مال خرچ کرنا ہے۔