کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 44
وجہ سے، اُس کی ادائیگی، قرض خواہ کے روبرو ملاقات کے وقت ذلیل ہونے اور ادائیگی میں تاخیر کے سبب اس کے زیر بار ہونے کے غم میں ڈوبا رہتا ہے۔ کتنی ہی دفعہ وہ واپسی کا وعدہ کرکے خلاف ورزی کرتا ہے، یا قرض خواہ سے بات کرتے وقت جھوٹ بولتا ہے، یا جھوٹی قسم کھاتا ہے، یا مرنے کی صورت میں[جنت میں جانے سے]روکا جاتاہے۔]
ایک دوسری روایت میں ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا:
’’ لَا تَحْتِفُوْا أَنْفُسَکُمْ۔ ‘‘
[خودکشی نہ کرو۔]
عرض کیا گیا:
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!صلي اللّٰه عليه وسلم۔ وَمَا نَحْتِفُ أَنْفُسَنَا؟ ‘‘
[یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہمارا خودکشی کرنا کیسے ہے؟ ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بِالدَّیْنِ ‘‘[1]
[قرض کے ساتھ]
۵: امام مالک نے امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے فرمایا:
’’ إِیَّاکُمْ وَالدَّیْنِ، فَإِنَّ أَوَّلَہُ ھَمٌّ، وَآخِرَہُ حَرْبٌ۔‘‘ [2]
[قرض سے دور رہو، کیونکہ اس کی ابتدا غم ہے اور انجام ناداری۔]
[1] المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍ ۲۶۔ امام حاکم نے اس کی [اسناد کو صحیح] اور حافظ ذہبی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍ ۲۶؛ والتلخیص ۲؍ ۲۶)۔
[2] موطا الإمام مالک، کتاب الوصیۃ، باب جامع القضاء، رقم الروایۃ ۸، ۲؍ ۷۷۰۔