کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 43
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا: ’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!وَمَا نُخِیْفُ أَنْفُسَنَا؟ ‘‘ [اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!ہمارا اپنی جانوں کو ڈرانا کیا ہے؟] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ الدَّیْن۔‘‘ [1] [قرض[کے ساتھ]]۔ شیخ احمد البنا حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’ وَالْمَعْنَيْ لَا تُخِیْفُوْا أَنْفُسَکُمْ بِالدَّیْنِ بَعْدَ أَمْنِھَا مِنَ الْغُرَمَائِ۔ وَإِنَّمَا کَانَ الدَّیْنُ جَالِبًا لِلْخَوْفِ لِشُغْلِ الْقَلْبِ بِھَمِّہِ وَقَضَائِہِ، وَالتَّذَلُّلِ لِلْغَرِیْمِ عِنْدَ لِقَائِہٖ، وَتَحَمُّل مِنَّتِہِ إِلیٰ تَأْخِیْرِ أَدَائِہِ۔ وَرَبُمَا یَعِدُ بِالوَفَائِ فَیُخْلِفُ، أَوْ یُحَدِّثُ الْغَرِیْمَ فَیَکْذِبُ أَوْ یَحْلِفُ فَیَحْنُثُ، أَوْ یَمُوْتُ فَیَرْتَھِنُ۔ ‘‘[2] [معنی یہ ہے، کہ اپنی جانوں کو، ان کے امن کے بعد، قرض کے ساتھ، قرض خواہوں سے نہ ڈراؤ، قرض باعثِ خوف بنتا ہے، کیونکہ دل اُس کی
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۷۴۰۷، ۲۸؍ ۶۲۶۔ حافظ منذری نے تحریر کیا ہے کہ اس کو احمد، ابویعلی، بیہقی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور احمد کی روایت کردہ حدیث کی دو سندوں میں سے ایک کے راویانِ ثقہ ہیں،(ملاحظہ ہو(الترغیب والترہیب ۲؍۵۹۶)۔ حافظ ہیثمی اس کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ احمد نے دو سندوں کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔ ان میں سے ایک کے [راویان ثقہ] ہیں۔ اس کو طبرانی نے [المعجم] الکبیر اور ابویعلی نے [بھی] روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد، کتاب البیوع، باب ماجاء في الدین، ۴؍۱۲۶)۔ شیخ البانی نے(اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۲؍۳۴۸)۔شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [اسناد کو حسن] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۲۸؍ ۶۲۶)۔ [2] بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني ۱۵؍ ۸۶۔۸۷۔ الترغیب والترھیب، کتاب البیوع وغیرھا، الترھیب من الدی، …، ۲؍ ۵۹۶۔