کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 42
وَالْکَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ، وَالدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ۔ ‘‘[1] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی[کچھ]دعائیں تھیں، جنھیں وہ چھوڑا نہیں کرتے تھے۔ ’’ اے اللہ!بلاشبہ میں غم اور رنج، بے بسی اور کاہلی، بخل اور بزدلی اور قرض اور آدمیوں کے غلبہ سے آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔‘‘] ۳: امام نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ ’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَدْعُوْ بِھٰؤلَائِ الْکَلِمَاتِ: ’’ أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ، وَغَلَبَۃِ العَدُوِّ، وَشَمَامَۃِ الْأَعْدَائِ۔ ‘‘[2] [بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے: ’’ اے اللہ!میں قرض کے چڑھ جانے، دشمن کے غلبہ اور شماتت اعداء[3] سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘] ۴: امام احمد نے حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے، کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ سے فرماتے ہوئے سنا: ’’ لَا تُخِیْفُوْا أَنْفُسَکُمْ۔‘‘ أَوْ قَالَ:’’ الْأَنْفُسُ۔ ‘‘ [اپنی جانوں کو نہ ڈراؤ۔][یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جانوں کو۔ ‘‘]
[1] سنن النسائي، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من الہَمِّ، ۸؍ ۲۵۷۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائي ۳؍ ۱۱۰۹)۔ صحیح البخاري میں [الدَّیْنِ] کی بجائے [وَضَلَعِ الدَّیْنِ] کے الفاظ ہیں۔ اور ان کا معنی ہے [اور قرض کے بوجھ اور سختی سے]۔(ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب الدعوات، باب التعوّذ من غلبۃ الرجال، رقم الحدیث ۶۳۶۳، ۱۱؍ ۱۷۳؛ وفتح الباري ۱۱؍ ۱۷۴)۔ [2] سنن النسائي، کتاب الاستعاذۃ، باب الاستعاذۃ من غلبۃ الدین، ۸؍ ۲۶۸۔شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائي ۳؍ ۱۱۱۳)۔ [3] یعنی میرے نقصان پر دشمنوں کو خوش ہونے کا موقع ملے۔