کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 41
[بلاشبہ جب بندہ مقروض ہوتا ہے، تو بات کرتا ہے، تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے، تو وہ خلاف ورزی کرتا ہے۔]
امام بخاری نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[بَابُ مَنِ اسْتَعَاذَ مِنَ الدَّیْنِ][1]
[قرض سے پناہ طلب کرنے والے شخص کے متعلق باب]
مذکورہ بالا حدیث قرض کی سنگینی کو اجاگر کرنے کے لیے بہت کافی ہے۔ علامہ عینی تحریر کرتے ہیں۔
’’ وَفِیْہِ، بَشَاعَۃُ الدَّیْنِ وَشِدَّتُہُ، وَتَأْدِیَّتُہُ الدَّائِنَ إِلیٰ اِرْتِکَابِ الْکَذِبِ، وَالْخُلْفِ فِيْ الْوَعْدِ اللَّذِیْنِ ھُمَا مِنْ صِفَاتِ الْمنافِقِیْنَ۔ ‘‘[2]
[اس میں قرض کی خرابی اور سنگینی ہے اور یہ کہ وہ مقروض کو جھوٹ اور وعدہ کی خلاف ورزی تک پہنچادیتا ہے، جو کہ دونوں منافقوں کی صفات میں سے ہیں۔ ‘‘
۲: امام نسائی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم دَعْوَاتٌ لَا یَدَعُھُنَّ:
اَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحَزَنِ،[3] وَالْعَجَزِ،
[1] صحیح البخاری ۵؍ ۶۰۔
[2] عمدۃ القاري ۶؍ ۱۱۸۔
[3] امام خطابی تحریر کرتے ہیں: ’’ اکثر لوگ [اَلْہَمِّ] اور [اَلْحَزَنِ] کے درمیان فرق نہیں کرتے، البتہ [الحَزَن] سابقہ بات پر اور [اَلْہَمِّ] متوقع بات کی بنا پر ہوتا ہے۔ ‘‘(منقول از شرح سنن النسائی للسیوطي ۸؍ ۲۵۶)۔