کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 39
عمر نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کو چار سو درہم بطورِ قرض دینے کے لیے پیغام بھیجا، تو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ أَتَسْتَسْلِفُنِيْ، وَعِنْدَکَ بَیْتُ الْمَالِ، أَلَا تَأْخُذُ مِنْہُ، ثُمَّ تَرُدُّہُ؟ ‘‘ [کیا آپ مجھ سے قرض طلب کرتے ہیں اور آپ کے پاس بیت المال ہے، آپ اس سے کیوں نہیں لے لیتے؟ پھر اس[قرض]کو واپس کردینا۔] عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ إِنِّيْ أَتَخَوَّفُ أَنْ یُصِیْبَنِيْ قَدَرِيْ، فَتَقُوْلَ أَنْتَ وَأَصْحَابُکَ:اُتْرُکُوْا ھٰذَا لِأَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ، حَتَّی یُوْخَذَ مِنْ مِیْزَانِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلٰکِنِّيْ أَتَسَلَّفُھَا مِنْکَ لِمَا أَعْلَمُ مِنْ شُحِّکَ، فَإِذَا مِتُّ، جِئْتَ فَاسْتَوْفَیْتَھَا مِنْ مِیْرَاثِيْ۔ ‘‘[1] [مجھے اس بات کا اندیشہ ہے، کہ میری موت آجائے، تو تم اور تمہارے ساتھی کہیں گے:’’ اس کو امیر المؤمنین کے لیے چھوڑ دو ‘‘، یہاں تک کہ وہ روزِ قیامت میرے میزان[یعنی نیکیوں]میں سے لیا جائے، لیکن میں تم سے قرض لے رہا ہوں، کیونکہ میں مال سے تمہاری شدید محبت کو جانتا ہوں، سو جب میں مروں گا، تو تم آؤگے اور میرے ترکہ میں سے اپنا پورا پورا حق وصول کرلوگے۔] اللہ اکبر!فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اور آج کے اہل اقتدار میں کس قدر فرق ہے!وہ بیت المال سے چار سو درہم کا قرض اس خوف کی بنا پر نہیں لیتے، کہ ان کی موت کی
[1] کتاب الأموال، الجزء الثالث من الکتاب، باب توفیر الفيء للمسلمین وإیثارھم علیہ، رقم الحدیث ۹۶۴، ص ۲۴۹۔