کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 38
’’ قُمْ فَاقْضِہِ۔‘‘ [1]
[اُٹھو اور اس کو قرض ادا کرو]۔
عہد نبوی کے بعد صحابہ کا قرض لینا:
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے قرض لینے کے دو واقعات درج ذیل ہیں:
۱: امام حاکم نے قاسم سے حوالے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ وہ قرض لیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا:’’ مَالَکِ وَالدَّیْنَ؟ ‘‘
آپ کا قرض سے کیا تعلق[یعنی آپ کیوں قرض لیتی ہیں؟]
انہوں نے جواب دیا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’’ مَا مِنْ عَبْدٍ کَانَتْ لَہُ نِیَّۃٌ فِيْ أَدَائِ دَیْنِہٖ إِلَّا کَانَ لَہُ مِنَ اللّٰہِ عَوْنٌ۔ ‘‘
[کسی بھی بندے کی اپنے قرض کی واپسی کی نیت نہیں ہوتی، مگر اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے]
’’ فَأَلْتَمِسُ ذٰلِکَ الْعَون۔ ‘‘[2]
[تو میں تو[قرض لے کر]اس مدد کو حاصل کرنا چاہتی ہوں۔]
۲: امام ابوعبید القاسم بن سلام نے ابراہیم سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:
[1] صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب استحباب الوضع من الدین، رقم الحدیث ۱۵۵۸، ۳؍ ۱۱۹۲۔
[2] المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍ ۲۲۔ امام حاکم نے اس کی [اسناد کو صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍ ۲۲؛ والتلخیص ۲؍ ۲۲)۔