کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 36
روایات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ کے قرض لینے کا ذکر ہے اور بعض دیگر میں قرض لینے کے متعلق ناپسندیدگی ظاہر ہوتی ہے۔ اس مقام پر توفیق الٰہی سے درج ذیل چار عنوانوں کے ضمن میں اس بارے میں گفتگو کی جارہی ہے:
ا: قرض لینے کے متعلق روایات
ب: قرض کے ناپسندیدہ ہونے کے متعلق روایات
ج: قرض لیا جائے یا نہ لیا جائے؟
د: قرض لینے کی شرائط
ا:قرض لینے کے متعلق روایات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاقرض لینا:
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ قرض لیا۔ اس بارے میں متعدد احادیث میں سے ایک کو امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے حضرت عبداللہ بن أبی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے بیان کیا:
’’ اِسْتَقْرَضَ مِنِّي النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَرْبَعِیْنَ أَلْفًا، فَجَائَ ہُ مَالٌ، فَدَفَعَہُ إِلَيَّ، وَقَالَ:’’ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِيْ أَھْلِکَ وَمَالِکَ۔ إِنَّمَا جَزَائُ السَّلَفِ اَلْحَمْدُ وَالْأَدَائُ۔‘‘ [1]
[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چالیس ہزار بطور قرض لیے، پھر[جب]
[1] سنن النسائي، کتاب البیوع، باب الاستقراض، ۷؍۳۱۴؛ وسنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب حسن القضاء، رقم الحدیث ۲۴۲۴، ۴؍ ۷۸۔(المطبوع بتحقیق دکـتور بشار)۔ الفاظ حدیث سنن النسائی کے ہیں۔ شیخ البانی نے اس کی [اسناد کو حسن] اور شیخ عبدالقادر ارناؤوط نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: إرواء الغلیل في تخریج المنار ۵؍۲۲۴؛ وھامش جامع الأصول ۴؍ ۴۶۴)۔ دکتور بشار نے سنن ابن ماجہ کی [اسناد کو صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: ھامش سنن ابن ماجہ ۴؍ ۷۸)۔