کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 34
شرعی معنی:
فقہاء کے نزدیک قرض سے مراد کسی چیز کا اس شرط پر دینا، کہ اس کا بدل واپس کیا جائے۔
امام ابن حزم قرض کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ ھُوَ أَنْ تُعْطِيَ إِنْسَانًا شَیْئًا بِعَیْنِہ مِنْ مَالِکَ، تَدْفَعُہُ إِلَیْہِ، لِیَرُدَّ عَلَیْکَ مِثْلَہُ إِمَّا حَالًّا فِيْ ذِمَّتِہِ، وَإِمَّا إِلیٰ أَجَلٍ مُسَمًّی۔ ‘‘[1]
[وہ یہ ہے، کہ تو کوئی چیز اپنے مال میں سے بعینہٖ کسی کو اس شرط پر دے، کہ وہ اس کی مثل ابھی تجھے ادا کردے، یا ایک مقررہ مدت کو۔]
شیخ شربینی تحریر کرتے ہیں:
’’ ھُوَ تَمْلِیْکُ الشَيْئِ عَلیٰ أَنْ یُرَدَّ بَدَلُہُ۔ ‘‘
[وہ کسی چیز کا اس شرط پر مالک بنانا ہے، کہ اس کی مثل واپس کی جائے][2]
سبب تسمیہ:
قرض کی وجہ تسمیہ یہ ہے، کہ صاحب مال اپنے مال کا ایک حصہ کاٹ کر مقروض کو دے دیتا ہے۔ شیخ شربینی لکھتے ہیں:
’’ وَسُمِّي بِذٰلِکَ لِأَنَّ الْمُقْرِضَ یَقْطَعُ لِلْمُقْتَرِضِ قِطْعَۃً مِنْ مَالِہٖ۔ ‘‘[3]
[اور اس کو یہ نام اس لیے دیتے ہیں، کیونکہ قرض خواہ اپنے مال کا ایک
[1] المحلّی ۸؍ ۴۶۲۔
[2] مغني المحتاج إلی معرفۃ معاني ألفاظ المنہاج ۲؍ ۱۱۷۔
[3] المرجع السابق ۲؍ ۱۱۷۔