کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 242
دینے والے کو ایک نیا قرضہ دینے کی شرط، اصل قرض پر اضافہ ہے، جو کہ شرعًا درست نہیں۔
ہ: دوسرے شہر میں قرض کی واپسی کی شرط عائد کرنا۔ اگر اس میں صرف مقروض یا مقروض اور قرض خواہ دونوں کا فائدہ ہو، تو اس شرط میں کچھ مضائقہ نہیں اور اگر اس میں صرف قرض خواہ کا فائدہ ہو، تو اس شرط کالگانا ناجائز ہوگا، کیونکہ قرض خواہ کے لیے اپنے قرض کے مثل کے علاوہ کوئی اور فائدہ بوجہ قرض حاصل کرنا حرام ہے۔
و: مقروض کا قرض خواہ کو ہدیہ دینا درست نہیں۔ اگر دونوں میں پہلے سے ہدیہ لینے دینے کا دستور تھا، تو اس کے مطابق لینے دینے میں کچھ حرج نہیں، البتہ لئے ہوئے قرض کی بنا پر مقروض کا ہدیہ دینا حرام ہے۔
ز: مقروض سے کسی قسم کی خدمت یا مہمانی لینا درست نہیں۔
۱۵:قرض کی زکوٰۃ:
۱: مقروض پر زکوٰۃ:
علمائے امت نے اموال کو اموال ظاہر ہ اور باطنہ میں تقسیم کیا ہے۔ اور عام علماء کے نزدیک اموال باطنہ جیسے نقدی، سونا چاندی اور سامان تجارت والے مقروض پر قرض کی زکوٰۃ نہیں۔
بعض علماء کے نزدیک اموال ظاہرہ(جیسے چوپائے، غلہ، پھل وغیرہ)والے مقروض پر قرض کی زکوٰۃ ہے۔ بعض علماء کی رائے میں اس پر قرض کی زکوٰۃ نہیں ہے۔ راجح بات یہ ہے، کہ کسی بھی مقروض پر اس کے پاس موجود قرض کی رقم پر زکوٰۃ نہیں، البتہ یہ بات ضروری ہے کہ اس کے مقروض ہونے کا دعویٰ درست ہو۔ واللہ تعالیٰ أعلم