کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 231
گیا، تو تمام قرض خواہوں نے ایک دَم میرے گھر پریلغار کر دی۔ سولہ ہزار پونڈ کا قرضہ ایک کارڈ پر تھا۔ ہالینگس اور برکلے بینکوں کے کارڈوں پر تیس ہزار پونڈ واجب الادا تھے۔ ایک کمپنی نے مجھے نوٹس بھیجا، کہ میں ان کے قرضے میں سے صرف دو ہزار پونڈ ادا کردوں، لیکن میرے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی، دو ہزار کہاں سے ادا کرتا۔ مالی پریشانیوں کے نتیجے میں گھر میں تناؤ اور بیوی سے لڑائی جھگڑا رہنے لگا۔آخر دو سال قبل ۲۵ سالہ ازدواجی زندگی طلاق پر ختم ہو گئی۔ جب ہماری علیحدگی ہوئی، تو تمام قرضہ میرے ہی نام پر تھا۔ نتیجتاً مجھے اپنا مکان فروخت کرنا پڑا۔[سابقہ]بیوی نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کر لی اور مجھے پہلی رات قریبی پارک کے بنچ پر سو کر گزارنا پڑی۔
اگلا ایک سال اس نے مختلف دوستوں کے گھروں میں صوفوں پر سوتے ہوئے گزارا، لیکن دوستوں پر ہمیشہ بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا، گزشتہ نو ماہ سے وہ انتہائی تلخ زندگی گزار رہا ہے۔ اس کا’’نیا گھر ‘‘ پارک کا بنچ ہے۔ اس کے دن کا بڑا حصہ کام کی تلاش یا لائبریری کے چکر لگانے میں گزرتا ہے۔
مچل آخر میں کہتا ہے:’’اب تک کا عام تاثر یہ رہا ہے، کہ بے گھر افراد پیشہ ور بھکاری، کام چور اور ہڈ حرام لوگ ہیں، لیکن اب یہ تاثر درست نہیں رہا۔ اکیسویں صدی میں بے گھر افراد کی اکثریت میرے جیسے سفید پوش لوگوں پر مشتمل ہو گی، کیونکہ بنک اور قرض دینے والے دوسرے ادارے جس طرح آسان شرائط پر لوگوںکو کریڈٹ کارڈوں کے جال میں پھانسنے کی مہم چلا رہے ہیں، اس سے یقینا میرے جیسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کو اس جال میں