کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 229
ا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کثرت سے قرض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے رہتے۔ ب: قرض سے اللہ تعالیٰ کی پناہ کا طلب کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی دعاؤں میں شامل تھا، جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑا نہیں کرتے تھے۔[یعنی مستقل مانگتے تھے] ج: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو جانوں کو خوف زدہ کرنے والا قرار دیا۔ د: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لینے کو خود کشی کرنا قرار دیا۔ ہ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے قرض کی ابتدا غم اور انتہا ناداری بتلائی۔ و: بعض سلف نے بیان کیا، کہ قرض کی وجہ سے لاحق ہونے والے غم کی بنا پر ضائع ہونے والی عقل واپس نہیں پلٹتی۔ ز: بعض علماء نے قرض کو عیب قرار دیا، کہ وہ رات کو پریشانی، دن کو ذلت، اور جانوں کو ڈرانے بلکہ کمزور کرنے کا سبب ہے۔ [1] مزید برآں علمائے اُمت نے احادیث شریفہ کی روشنی میں قرض لینے کے لیے کچھ شرائط کی موجودگی کو ضروری قرار دیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہے، کہ قرض لینے کا معقول اور جائز سبب موجود ہو۔ [2] چارج کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کا فلسفہ مذکورہ بالا سب باتوں کے کلی طور پر برعکس ہے۔کارڈ جاری کرنے والے بنک کا مطمح نظر یہ ہوتا ہے، کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے تیار کردہ قرض کے سنہری پنجرے میں خوب اچھی طرح پھنس جائیں، تاکہ وہ لمبی مدت تک ان کا خون چوستے رہیںاور کارڈوں والے[نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن]کی
[1] اس بارے میں تفصیل اس کتاب کے صفحات ۴۰ تا ۴۵ میں ملاحظہ فرمائیے۔ [2] اس بارے میں تفصیل اس کتاب کے صفحات ۴۷ تا ۵۲ میں ملاحظہ فرمائیے۔