کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 214
الرَّسُّوْلِ الَّذِيْ أَمَرَ أَنْ تُؤْخَذَ الزَّکَاۃُ مِنَ الْأَغْنِیَائِ لِتَرُدَّ عَلَی الْفُقَرَائِ۔ وَالْمَدِیْنُ مِنْ أَھْلِ الزَّکَاۃِ، فَکَیْفَ تُؤْخَذُ مِنْہُ؟ وَمَعَ ھٰذَا إِنَّہُ مِنَ الْغَارِمِیْنَ، فَاسْتَوْجَھَا مِنْ جہتین۔ ‘‘[1] ’’ جب قرض کا ہونا پایہ ثبوت کو پہنچ جائے(یعنی صرف دعویٰ ہی نہ رہے)، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے، جنھوں نے اغنیاء سے زکوٰۃ لے کر فقیروں کو دینے کا حکم دیا ہے، کھیتی اور چوپاؤں والے سے زکوٰۃ ساقط ہوجائے گی۔ مقروض(تو خود)زکوٰۃ کے مستحقین میں سے ہے، اس سے زکوٰۃ کیسے لی جائے گی؟ علاوہ ازیں وہ[غارمین][2] میں سے ہے، اس لیے دو پہلوؤں سے خود زکوٰۃ کا مستحق ہے۔ ‘‘ [3] (۲) کیا قرض دینے والا قرض کی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ اس سلسلے میں حضراتِ صحابہ اور علمائے اُمت کی مختلف آراء ہیں۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں اس بارے میں کچھ گفتگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ (۱) ایک رائے یہ ہے، کہ قرض دینے والے پر قرض کی زکوٰۃ نہیں۔ عکرمہ فرماتے ہیں: ’’ لَیْسَ فِیْ الدَّیْنِ زَکَاۃٌ۔ ‘‘ ’’ قرض میں زکوٰۃ نہیں۔ ‘‘ یہی بات حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کی گئی ہے۔
[1] الأموال ص ۵۱۰، منقول از فقہ الزکوٰۃ ۱؍ ۱۵۹۔ [2] زکوٰۃ کے آٹھ مصارف میں سے ایک [غارمین] ہے یعنی ایسے مقروض جو قرض ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔ [3] یعنی ایک فقیر ہونے کی بنا پر اور دوسرا [غارمین] میں سے ہونے کی وجہ سے۔