کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 208
علامہ ابن قدامہ تحریر کرتے ہیں: ’’ قَالَ ذٰلِکَ بِمَحْضَرٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ، فَلَمْ یُنْکِرُوْہُ، فَدَلَّ عَلیٰ اتِّفَاقِھِمْ عَلَیْہِ۔ ‘‘[1] ’’ انہوں نے صحابہ کی موجودگی میں یہ بات فرمائی، لیکن انھوں نے اس پر اعتراض نہ کیا۔ اور یہ اس بات پر ان کی موافقت پر دلالت کرتی ہے۔ ‘‘ ۲: زکوٰۃ کی فرضیت اغنیاء پر ہے، فقراء پر نہیں۔ اگر مقروض کے ذمہ قرض اس کے پاس موجود رقم کے برابر ہے، یا اس قدر ہے، کہ اس کے بعد وہ صاحبِ نصاب نہیں رہتا، تو وہ فقراء کے دائرہ میں شامل ہو کر زکوٰۃ کا مستحق ٹھہرا، اس سے قرض کے مال کی زکوٰۃ کا مطالبہ کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ [2] ۳: صدقہ و خیرات تو اس حد تک کی جاتی ہے، کہ اس کی ادائیگی کے بعد بھی ادا کرنے والا تونگر اور غنی رہے۔ اور یہاں تو مقروض پہلے ہی سے فقیر ہے، قرض کی چیز یا رقم کی زکوٰۃ کی ادائیگی اس کے فقر میں مزید اضافہ کرے گی۔ [3] ۴: زکوٰۃ کی فرضیت ناداروں کے ساتھ تعاون اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تونگری کا شکر ادا کرنے کے لیے ہے۔ اور یہاں تو مقروض خود نادار ہے اور اسلام کا ثابت شدہ ضابطہ ہے:ابْدَأْ بِنَفْسِکَ ثُمَّ بِمَنْ تَعُوْلُ۔ [4]… ’’ اپنی جان سے شروع کرو، پھر ان کے ساتھ، جن کی کفالت تم کرتے ہو۔ ‘‘ علاوہ ازیں نادار مقروض کو تو اس قدر تونگری میسر ہی نہیں ہوئی، کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو۔
[1] المغني ۴؍ ۲۶۴۔ [2] ملاحظہ ہو: المغني ۴؍ ۲۶۴۔ [3] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴؍ ۲۶۴۔ [4] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۴؍ ۲۶۴۔