کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 207
روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ فرمارہے تھے: ’’ إِنَّ ھٰذَا شَہْرُ زَکَاتِکُمْ۔ فَمَنْ کَانَ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَلْیُؤَدِّہِ، ثُمَّ لِیُؤَدِّ زَکَاۃَ مَا فَضَلِ۔ ‘‘[1] ’’ بلاشبہ یہ تمہارا زکوٰۃ کا مہینہ ہے۔ [2] پس جس کسی کے ذمہ قرض ہو، اس کو چاہیے، کہ وہ اس کو ادا کردے، پھر باقی کی زکوٰۃ ادا کرے۔ ‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ فَمَنْ کَانَ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَلْیَقْضِہِ، وَزَکُّوْا بَقِیَّۃَ أَمْوَالِکُمْ۔ ‘‘[3] ’’ پس جس پر قرض ہو، سو وہ اس کو ادا کردے۔ اور اپنے باقی ماندہ مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔ ‘‘ حافظ ابن عبدالبر رقم طراز ہیں: ’’ قَوْلُ عُثْمَان رضی اللّٰه عنہ یَدُلُّ عَلیٰ أَنَّہُ لَا تَجِبُ الزَّکَاۃُ عَلَی مَنْ عَلَیْہِ دَیْن۔ ‘‘[4]
[1] الموطأ، کتاب الزکاۃ، باب الزکوٰۃ في الدین، رقم الروایۃ ۱۷، ۱؍ ۲۵۳ ؛ومصنف عبدالرزق، کتاب الزکاۃ، باب لا زکوٰۃ إلا في فضل، رقم الروایۃ ۷۰۸۶، ۴؍ ۹۲۔۹۳؛ ومصنف ابن أبي شیبۃ، کتاب الزکاۃ، ما قالوا في الرجل یکون علیہ الدین من قال: ’’ لا یزکیہ ‘‘، ۳؍ ۱۹۴ ؛ والسنن الکبری للبیہقي، کتاب الزکاۃ، باب الدین مع الصدقۃ، رقم الروایۃ ۷۶۰۶، ۴؍ ۲۴۹۔ الفاظِ روایت مصنف عبدالرزاق کے ہیں۔ [2] زکوٰۃ کے مہینہ سے ان کی مراد رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اور ادائیگی زکوٰۃ کے لیے رمضان کے مہینے کا تعین ضروری نہیں۔ حاصل شدہ مال پر سال مکمل ہونے کے پیش نظر کسی بھی مہینے کو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مقرر کیا جاسکتا ہے۔ [3] مصنف ابن أبي شیبہ ۳؍ ۱۹۴۔ [4] التمہید۔ منقول از ھامش السنن الکبری للبیہقی ۴؍ ۲۵۱۔