کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 201
یُھْدِيْ إِلَیْہِ السَّمَکَ، فَأَتَی ابْنَ عَبَّاسٍ رضی اللّٰه عنہما، فَسَأَلَہُ عَنْ ذٰلِکَ، فَقَالَ:’’ قَاصِہِ بِمَا أَھْدَی إِلَیْکَ۔ ‘‘[1] ’’ ہمارا ایک پڑوسی مچھیرا تھا۔ کسی شخص کے اس کے ذمہ پچاس درہم تھے۔ وہ اس کو مچھلی بطورِ تحفہ دیتا رہا۔ قرض دینے والے نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا:’’ جس قدر مچھلی اس نے بطورِ تحفہ تمہیں دی ہے، اس کی قیمت[اصل رقم سے]منہا کردو۔ ‘‘ و: امام عبدالرزاق نے ابواسحق سے روایت نقل کی ہے، کہ ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’ إِنِّيْ أَقْرَضْتُ رَجُلًا قَرْضًا، فَأَھْدَی لِيْ ھَدِیَّۃً۔ ‘‘ ’’ بے شک میں نے ایک شخص کو قرض دیا تھا، تو اس نے مجھے تحفہ دیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’ ارْدُدْ إِلَیْہِ ھَدِیَّتَہُ أَوْ أَثِبْہُ۔ ‘‘[2] ’’ اس کا تحفہ اس کو واپس کردو، یا اس کو[اس کا]بدل دو۔ ‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ أَواحْسُبْھَا لَہُ مِمَّا عَلَیْہِ۔‘‘ [3]
[1] المصنف لعبد الرزاق، کتاب البیوع، باب الرجل یہدی لمن أسلنہ، رقم الروایۃ ۱۴۶۵۱، ۸؍ ۱۴۳؛ والسنن الکبری، کتاب البیوع، باب کل قرض جرَّ منفعۃً، رقم الروایۃ ۱۰۹۳۱، ۵؍ ۵۷۲۔ ۵۷۳۔ شیخ البانی نے السنن الکبری کی [اسناد کو صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: إرواء الغلیل ۵؍ ۲۳۴)۔ [2] المصنف، کتاب البیوع، باب الرجل یہدي لمن أسلفہ، رقم الروایۃ ۱۴۶۵۴، ۸؍ ۱۴۴۔ [3] المرجع السابق، جزء من رقم الروایۃ ۱۴۶۵۵، ۸؍ ۱۴۴۔