کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 199
ب: امام بخاری نے ابوبردۃ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ میں مدینہ[طیبہ]حاضر ہوا، تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی۔ انہوں نے فرمایا:’’ کیا[ہمارے ہاں]نہیں آؤگے، کہ میں تمھیں ستو[پلاؤں]اور کھجوریں کھلاؤں اور تم ایک[ایسے]گھر میں داخل ہو گے[کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لائے تھے]؟ ‘‘ پھر انہوں نے فرمایا: ’’ إِنَّکَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِھَا فَاشٍ۔ إِذَا کَانَ لَکَ عَلیٰ رَجُلٍ حَقٌّ، فَأَھْدَی إِلَیْکَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِیْرٍ أَوْ حِمْلَ قِتٍّ، فَلَا تَأْخُذْہُ، فَإِنَّہُ رِبَا۔ ‘‘[1] ’’ تم ایسی سرزمین میں ہو، جہاں سود عام ہے۔ جب تمہارا کسی پر قرض ہو، پھر وہ تمہیں گھاس کا،یا جَو کا، یا چارے کا ایک گٹھا تحفہ کے طور پر بھیجے، توبھی نہ لو، کیونکہ بلاشبہ وہ سود ہے۔ ‘‘ علامہ عینی حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے اس قول کی شرح میں تحریر کرتے ہیں: ’’ أَيْ فَإِنَّ قَبُوْلَ ھَدِیَّۃِ الْمُسْتَقْرِضِ جَارٍ مَجْرَی الرِّبَا مِنْ حَیْثُ أَنَّہُ زَائِدٌ عَلیٰ مَا أَخَذَہ مِنْہُ الْمُسْتَقْرِضُ۔ ‘‘[2] ’’ یعنی قرض خواہ کا ہدیہ قبول کرنا سود ہی کے حکم میں ہے، کیونکہ وہ اس
[1] صحیح البخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب مناقب عبداللّٰہ بن سلام رضی اللہ عنہ، رقم الروایۃ ۳۸۱۴، ۷؍ ۱۲۹۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں : اسی بات کو سعید بن منصور نے اپنی [کتاب] السنن میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی [یہی بات] روایت کی گئی ہے۔(ملاحظہ ہو : الفتاوی الکبری ۲؍۱۶۰)۔ [2] ملاحظہ ہو: عمدۃ القاري ۱۶؍ ۲۷۷۔