کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 198
(۶)
مقروض کا ہدیہ دینا
بعض لوگ قرض لینے کے بعد ادھار دینے والوں کو تحائف دیتے ہیں۔ ایسے تحائف کا قبول کرنا ناجائز ہے۔ اس بارے میں ذیل میں ایک حدیث شریف اور چند ایک صحابہ کرام اور علمائے اُمت کے اقوالِ ملاحظہ فرمائیے:
۱: امام ابن ما جہ اور امام بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ إِذَا أَقْرَضَ أَحَدُکُمْ قَرْضًا فَأَھْدَی إِلَیْہِ، أَوْ حَمَلَہُ عَلَی الدَّابَّۃِ، فَلَا یَرْ کَبْھَا، وَلَا یَقْبَلْہُ إِلَّا أَنْ یَکُوْنَ جَرَی بَیْنَہُ
وَبَیْنَہُ قَبْلَ ذٰلِکَ۔ ‘‘[1]
’’جب تم میں سے کوئی ایک قرض دے، تو وہ[یعنی مقروض]اس کو تحفہ دے، یا سواری پر سوار[ہونے کی پیشکش]کرے، تو وہ نہ تو اس پر سوار ہو اور نہ ہی اس[ہدیہ]کو قبول کرے۔ ہاں اگر ان دونوں کے درمیان پہلے سے اس سلسلے میں کوئی دستور رائج ہو[تو پھر کچھ مضائقہ نہیں]۔ ‘‘
[1] سنن ابن ماجہ، أبواب الأحکام، باب القرض، رقم الحدیث ۲۴۵۸، ۲؍۶۱؛ والسنن الکبری، کتاب البیوع، باب کل قرض جرَّ منفعۃ فہوربا، رقم الحدیث ۱۰۹۳۴، ۵؍۵۷۳۔ الفاظ حدیث سنن ابن ماجہ کے ہیں۔ حافظ بوصیری اور شیخ البانی نے اس کو [ضعیف] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو : مصباح الزجاجۃ ۲؍۴۸؛ وضعیف سنن ابن ماجہ ص ۱۸۸؛ وإرواء الغلیل ۵؍۲۳۶ ؛ و سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ ۳؍۳۰۳ -۳۰۷)۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو : الفتاوی الکبری ۶؍۱۵۹-۱۶۰)۔ شیخ عبداللہ بن محمد عمرانی نے لکھا ہے، کہ یہ حدیث اس اسناد کے ساتھ تو ضعیف ہے، البتہ تعدد طرق، حضرات صحابہ کے تائیدی اقوال اور راوی کے ضعیف ہونے کا سبب فسق اور جھوٹ نہ ہونے کی بنا پر [الحسن لغیرہ] کے درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔(ملاحظہ ہو : المنفعۃ في القرض ص ۱۲۰)۔