کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 197
’’ إِذَا مَا سَلَّفْتَ رَجُلًا ھُنَا طَعَامًا، فَأَعْطَاکَہُ بِأَرْضٍ أُخْرَی، فَإِنْ کَانَ یَشْتَرِطُ فَھُوَ مَکْرُوْہٌ، وَإِنْ کَانَ عَلیٰ وَجْہِ الْمَعْرُوْفِ فَلَا بَأْسَ۔ ‘‘[1] ’’ جب آپ کسی کو اس جگہ غلہ بطور قرض دیں اور وہ اس کو کسی دوسری جگہ ادا کردے۔ اگر یہ طے شدہ شرط کے ساتھ ہو، تو ناپسندیدہ ہے، اور اگر یہ[مقروض کی جانب سے قرض خواہ کے ساتھ]بھلائی کی غرض سے ہو، تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں۔ ‘‘ ۲: اگر دوسری جگہ ادائیگی کی شرط کی بنا پر مقروض پر کسی اضافی خرچے اور راستے کے خطرے کو برداشت کرنے کا بوجھ نہ ہو، تو اس صورت میں یہ معاملہ درست ہوگا۔ علامہ ابن قدامہ تحریر کرتے ہیں: ’’ وَإِنْ شَرَطَ أَنْ یُعْطِیَہُ إِیَّاہُ فِيْ بَلَدٍ آخَرَ، وَکَانَ لِحَمْلِہِ مَؤُوْنَۃٌ لَمْ یَجُزْ، لِأَنَّہُ زِیَادَۃٌ، وَإِنْ لَمْ یَکُنْ لِحَمْلِہِ مَؤُوْنَۃٌ جَازَ۔ ‘‘[2] ’’ اور اگر اس[یعنی قرض خواہ]نے یہ شرط لگائی، کہ وہ اس کو دوسرے شہر میں ادا کرے اور وہاں پہنچانے کا کرایہ ہو، تو یہ شرط لگانا جائز نہ ہوگا، کیونکہ یہ[قرض کی اصل رقم یا چیز پر]اضافہ ہے اور اگر اس کی منتقلی کا خرچہ نہ ہو، تو یہ(شرط لگانا)جائز ہوگا۔ ‘‘
[1] المصنف، کتاب البیوع، باب السُفْتجہ، رقم الروایۃ ۱۴۶۴۱، ۸؍ ۱۴۰۔ [2] المغني ۶؍ ۴۳۶۔