کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 195
مذکورہ بالا شکل سے یہ حقیقت سمجھ میں آتی ہے، کہ قرض خواہ مقروض سے قرض کے بدلہ میں کوئی ایسا نفع نہیں لے رہا، جس کا لینا حرام ہے۔ قرض خواہ کو ملنے والا نفع یا سہولت اس اضافی نفع یا سہولت کے بدلے میں ہے، جو کہ وہ مقروض کو دے رہا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ قرض کے ساتھ حاصل شدہ ناجائز فائدہ کے دائرہ سے خارج ہے۔ حضرت ابوموسیٰ کا فاروقِ اعظم کے دو صاحبزادوں رضی اللہ عنہم کو دیا ہوا قرض بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا اعتراض اس قرض کے دینے پر نہیں تھا، بلکہ امیر المؤمنین کے بیٹوں کو دینے کی تخصیص کی بنا پر تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا معاملہ بھی اسی صورت کا تھا۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’ جب وہ کسی دوسرے شہر میں وصول کرنے کی شرط پر قرض دے:مثال کے طور پر ادھار دینے والے کی مصلحت کسی دوسرے شہر میں درہم پہنچانا ہو اور ادھار لینے والے کے اس شہر میں درہم موجود ہوں، البتہ اس کو درہموں کی ضرورت قرض خواہ کے شہر میں ہو، تو وہ اس سے قرض لے کر اپنے شہر میں ایک چٹھی[سُفْتَجَہ]لکھ دے۔ علماء کے ایک قول کے مطابق یہ معاملہ صحیح ہے۔ یہ[بھی]کہا گیا ہے، کہ یہ ممنوع ہے، کیونکہ اس میں قرض نے نفع پہنچایا ہے۔[لیکن]صحیح بات یہ ہے، کہ یہ جائز ہے، کیونکہ قرض خواہ کو اس شہر تک درہم پہنچانے میں راستے کا خطرہ نہ اُٹھانا پڑا اور مقروض کو بھی اسی شہر میں ادائیگی سے راستے کے خطرہ کو برداشت کرنے سے نجات مل گئی۔ قرض کے اس معاملہ میں دونوں کو فائدہ ہوا اور شارع لوگوں کے لیے