کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 173
پہلے سوال کا یقینا جواب یہ ہے، کہ عام حالات میں قرض دینا مستحب[1] ہے اور دوسرے سوال کا قطعی طور پر جواب یہ ہے، کہ سود کا دینا یا اس کے دینے کا کسی کو پابند کرنا حرام ہے۔ مذکورہ بالا جوابات کی روشنی میں کیا یہ عقل مندی ہے، کہ ایک مستحب کام کی خاطر حرام کے ارتکاب کی پابندی فتوی دیا جائے؟ کیا قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں مقروض پر جرمانہ عائد کرنے پر اصرار کرنے والے قرض خواہ کے لیے یہ مناسب نہیں، کہ وہ قرض ہی نہ دے، تاکہ اس کا ایک مستحب کام دوسرے اشخاص کے لیے حرام کام کرنے کی پابندی کا سبب نہ بنے؟ ۴: علاوہ ازیں کیا لوگوں کی اصلاح اور ان کے حقوق و اپس دلوانے کی خاطر اپنی مرضی سے سزائیں ایجاد کرنے کا کسی کو اختیار حاصل ہے؟ امام ابو المعالی الجوینی تحریر کرتے ہیں: وَذَھَبَ بَعْضُ الْجَھَلَۃِ عَنْ غِرَّۃٍ وَغَبَاوَۃٍ أَنَّ مَاجَرَی فِي صَدْرِ الْاِسْلَامِ مِنَ التَّخفِیْفَاتِ کَانَ سَبَبُھَا أَنَّھُمْ کَانُوْا عَلَی قُرْبِ عَھْدٍ بِصَفْوَۃِ الاِسْلَامِ، وَکَانَ یَکْفِيْ فِي رَدْعِھِمْ التَّنْبِیْہُ الْیَسِیْرُ، وَالْمِقْدَارُ الْقَرِیْبُ مِنَ التَّعْزِیْرِ۔ وَأَمَّا الْآن فَقَدْ قَسَتْ الْقُلُوْبُ، وَبَعُدَتِ الْعُھُوْدُ، وَوَھَتِ الْعُقُوْدُ، وَصَارَ مُتَشَبَّثُ عَامَّۃِ الْخَلْقِ الرَّغَبَاتِ وَالرَّھْبَاتِ، فَلَوْ وَقَعَ الْاِقْتِصَارُ عَلی مَا کَانَ مِنَ الْعَقُوْبَاتِ لَمَا اِسْتَمَرَّاتِ السِّیَاسَاتُ۔ وَھَذَا الْفَنُّ قَدْ یَسْتَھِیْنُ بِہِ الْأَغْبِیَائُ، وَھُوَ عَلَی الْحَقِیْقَۃِ تُسَبِّبُ إِلٰی مُضَادَۃِ مَا ابْتُعِثَ بِہِ سَیِّدُ الْأَنْبِیَائِ عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمُ السَّلَام۔وَعَلَی الْجُمْلَۃِ مَنْ ظَنَّ أَنَّ الشَّرِیْعَۃَ تَتَلَقَّی مِنَ
[1] مستحب ایسا عمل ہوتا ہے، کہ اس کے کرنے میں ثواب اور نہ کرنے میں گناہ نہ ہو۔