کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 172
ح: قرض خواہ کا مفلس کے ہاں اپنے موجود مال کا زیادہ حق دار ہونا ط: مقروض میت کی وصیت پر عمل قرض کی ادئیگی کے بعد ہونا ی: تقسیم وراثت کا ادائیگی قرض کے بعد ہونا ک: ضامن کا تقرر ل: حوالۂ دین کی بنا پر ذمہ داری قبول کرنے والے کا ادائیگی کا پابند ہونا [1] علاوہ ازیں اگر کسی شخص نے معقول اور جائز غرض کے لیے قرض لیا ہو اور جدوجہد کے باوجود اپنے وسائل کی قلت کی بنا پر قرض کی ادائیگی نہ کر سکتا ہو، تو اسلامی شریعت میں اس کو سوال کرنے کی اجازت دی گئی ہے اور دوسرے لوگوں اور اسلامی ریاست کو اس کی مدد کرنے کی تلقین کی گئی ہے، جس کا خاکہ حسب ذیل ہے: ا: اسلامی معاشرہ کی طرف سے اعانت ب: اقارب کو نادار میت کے قرض کی ادئیگی کی تلقین ج: اسلامی ریاست کی نادار شخص کے قرض کی ادائیگی کے سلسلہ میں ذمہ داری [2] قرض کی رقم واپس کروانے کے لیے جرمانہ کی غیر شرعی تدبیر اختیار کرنے کا فتویٰ دینے کی بجائے، ضرورت اس بات کی ہے، کہ مذکورہ بالا شرعی تدابیر پر سنجیدگی اور دلجمعی سے عمل پیرا ہونے کی پر زور تلقین کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے قوی اُمید ہے، کہ اس طرح قرض خواہ کی دی ہوئی رقم ضائع نہیں ہو گی۔ ۳: اگر کوئی شخص یا ادارہ یہ سمجھتا ہے، کہ مذکورہ بالا ساری تدبیریں اس کی رقم کی واپسی کے لیے ناکافی ہیں، تو اس کو درج ذیل دو سوال اور ان کے جواب کو واضح طور پر اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے: ا:عام حالات میں قرض دینے کا شرعی حکم کیا ہے؟ ب:سود دینے یا کسی کو سود دینے کاپابند کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
[1] ان سب تدبیروں کی تفصیل اس کتاب کے صفحات ۱۱۱ تا ۱۵۳میں ملاحظہ فرمائیے۔ [2] ان تینوں باتوں کی تفصیل اس کتاب کے صفحات ۱۵۵ تا ۱۶۸میں ملاحظہ فرمائیے۔