کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 170
اسی بارے میں اردنی عالم ڈاکٹر مصطفی زرقاء لکھتے ہیں: ’’حل یہ ہے، کہ ٹال مٹول کرنے والے مقروض پر قرض کی رقم اور ٹال مٹول کی مدت کے تناسب سے تعزیری طور پر نقد جرمانہ عائد کیا جائے۔[جرمانہ]سود کے شبہ کی بنا پر قرض خواہ کو نہ دیا جائے، بلکہ اس کو خیراتی کاموں کے لیے مخصوص کر دیا جائے۔‘‘ [1] تبصرہ: اس نقطہ نظر پر تبصرہ توفیق الٰہی سے درج ذیل نکات کے ضمن میں پیش کیا جا رہا ہے: ۱: اس نقطہ نظرکے حامل حضرات بطورِ جرمانہ لی ہوئی رقم قرض خواہ کو دینے کی اجازت نہیں دیتے، کہ اس میں سود کا شبہ ہے اور سود لینا حرام ہے۔ یہاں قابلِ توجہ بات یہ ہے، کہ اگر سود کا لینا حرام ہے، تو کیا دینا جائز ہے؟ اور کیا کسی کو سود کی ادائیگی کا پابند کرنا درست ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں سود کھانے والوں پرلعنت کی ہے، وہاں کھلانے والے پر بھی لعنت کی ہے۔ امام مسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِصلي اللّٰه عليه وسلم آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہُ۔‘‘ [2] [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔] امام نووی نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[1] مجلۃ دراسات اقتصادیۃ إسلامیۃ ص۴۴۔ منقول از کتاب : أحکام تغیر قیمۃ العملۃ النقدیۃ وأثرھا في تسدید القرض ‘‘ ص ۹۶۔ [2] صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، رقم الحدیث ۱۰۵۔(۱۵۹۷) ؛ ۳؍۱۲۱۸۔