کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 167
مقاصد کی خاطر لیے گئے ہوں۔ اسراف و تبذیر کی غرض سے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری بیت المال پر نہیں۔ اس شرط کی تائید حضرت عمر بن عبدالعزیز کے اس حکم سے ہوتی ہے، جو کہ انہوں نے حاکم عراق عبدالحمید بن عبدالرحمن کو دیا تھا، کہ اس شخص کا قرض بیت المال سے ادا کرو، جس نے حماقت کے کاموں یا اسراف سے خرچ کرنے کے لیے قرض نہ لیا ہو۔ اسی طرح اس کی تائید امام قرطبی اور قاضی ابو سعود کے بیانوں سے بھی ہوتی ہے، کہ زکوٰۃ کا مستحق وہ مقروض شخص ہے، کہ جس نے بیوقوفی اور گناہ کے کاموں کی خاطر قرض نہ لیا ہو۔ [1] ۲۔ ادائیگی قرض کے لیے مقروض کی تاحدِ استطاعت کوشش: کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں، کہ وہ قرض لے کر اجاڑ دے، پھر اس انتظار میں رہے، کہ بیت المال اس کو ادا کرے۔ وہ اس بات کا پابند ہے، کہ قرض کی واپسی کے لیے اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تاحدِ استطاعت کوشش کرے۔ اگر پھر بھی اس کو کامیابی نہ ہو اور وہ قرض ادا کیے بغیر مرجائے، تو پھر بیت المال اس کی جانب سے قرض ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ امام احمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مَنْ حَمَلَ مِنْ أُمَّتِيْ دَیْنًا، ثُمَّ جَھَدَ فِيْ قَضَائِہِ، فَمَاتَ، وَلَمْ یَقْضِہِ، فَأَنَا وَلِیُّہُ۔ ‘‘[2] ’’ میری اُمت میں سے جس شخص نے قرض لیا، پھر اس کی ادائیگی کی
[1] ملاحظہ ہو اس کتاب کے صفحات ۴۷ تا ۴۹ اور ص ۱۵۶۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۴۴۵۵، ۴۰؍ ۵۱۱۔ حافظ منذری اس کے متعلق لکھتے ہیں،کہ احمد نے اس کو [عمدہ اسناد] کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ابویعلی اور طبرانی نے [المعجم] الاوسط میں اس کو روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: الترغیب والترہیب ۲؍ ۵۹۸)۔ شیخ البانی اور شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۲؍ ۳۴۹ ؛ وھامش المسند ۴؍ ۵۱۱)۔