کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 165
بَعْدَہُ؟ وَالرَّاجِحُ الْاِسْتِمْرَارُ۔ ‘‘[1] ’’ کیا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا یا آپ کے بعد حکام پر بھی واجب ہے؟ راجح بات یہ ہے، کہ اس کا وجوب[ان پر]جاری ہے۔ ‘‘ ج: علامہ عینی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں: ’’ وَفِیْہِ أَنَّ الْاِمَامَ یَلْزَمُہُ أَنْ یَفْعَلَ ھٰکَذَا فِیْمَنْ مَاتَ، وَعَلَیْہِ دَیْنٌ۔ فَإِنْ لَّمْ یَفْعَلْہُ وَقَعَ الْقِصَاصُ مِنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَالإِْثْمُ عَلَیْہِ فِيْ الدُّنْیَا، إِنْ کَانَ حَقُّ الْمَیِّتِ فِيْ الْمَالِ بَقِيَ بِقَدْرِ مَا عَلَیْہِ مِنَ الدَّیْنِ وَإِلَّا فَبِقِسْطِہِ۔ ‘‘[2] ’’ اس[حدیث]میں یہ ہے، کہ بلاشبہ امام پر لازم ہے، کہ وہ فوت ہونے والے مقروض شخص کے ساتھ ایسے ہی کرے۔ اگر وہ ایسے نہیں کرے گا، تو روزِ قیامت اس سے قصاص لیا جائے گا اور دنیا میں وہ گناہ گار ہے۔ اگر بیت المال میں میت کا حق قرض کے برابر ہو[تو مکمل قرض ادا کیا جائے گا]، وگرنہ اس کے حق کے برابر اس کا قرض ادا کیا جائے گا۔ ‘‘ ۴: شیخ البانی لکھتے ہیں: ’’ فَإِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُ مَالٌ، فَعَلَی الدَّوْلَۃِ أَنْ تُؤَدِّيَ عَنْہُ، إِنْ کَانَ جَھَدَ فِيْ قَضَائِہِ۔ ‘‘ ’’ اگر اس[یعنی مقروض میت]کے پاس مال نہ ہو، اور اس نے[پہلے سے خود]اس کے ادا کرنے کے لیے جدوجہد کی ہو،[لیکن ادا نہ کر سکا ہو]
[1] فتح الباري ۱۲؍ ۱۰۔ [2] عمدۃ القاري ۱۲؍ ۱۲۶۔