کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 163
’’ فَلَوْ رَأَیْتُ أَھْلَہُ وَمَنْ یَتَحَرَّوْنَ أَمْرَہُ قَامُوْا فَقَضَوْا عَنْہُ۔ ‘‘[1] ’’ میں چاہتا ہوں، کہ اس کے کنبہ والے اور اس کے معاملہ کی فکر کرنے والے لوگ اُٹھیں اور اس کی طرف سے ادائیگی کردیں۔ ‘‘ ۳:نادار مقروض کے سلسلے میں اسلامی ریاست کی ذمہ داری: اسلامی ریاست کی گوناگوں ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے، کہ وہ نادار اور مفلس مقروض لوگوں کے قرض کی ادائیگی میں ان کی اعانت کرے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسی میت کو لایا جاتا، جس پر قرض ہوتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’ ھَلْ تَرَکَ لِدَیْنِہِ فَضْلًا؟ ‘‘ ’’ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ ‘‘ پھر اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا جاتا، کہ اس نے اتنا مال چھوڑا ہے، کہ اس سے قرض ادا ہوسکتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز(جنازہ)پڑھاتے، وگرنہ مسلمانوں سے فرماتے: ’’ صَلُّوْا عَلیٰ صَاحِبِکُمْ۔ ‘‘ ’’ اپنے ساتھی کی نماز(جنازہ)پڑھ لو۔ ‘‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دیئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَنَا أَوْلیٰ بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِھِمْ، فَمَنْ تَوَفَّی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَتَرَکَ دَیْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُہُ، وَمَنْ تَرَکَ مَا لًا فَلِوَرَثِتِہِ۔ ‘‘[2]
[1] السنن الکبری للبیہقی، کتاب التفلیس، باب حلول الدین علی المیت، جزء من رقم الحدیث ۱۱۲۶۸، ۶؍ ۸۲۔ [2] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب الکفالۃ، باب الدین، رقم الحدیث ۲۲۹۸، ۴؍ ۴۷۷ ؛ وصحیح مسلم، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثتہ، ۱۴۔(۱۶۱۹)، ۳؍ ۱۲۳۷۔