کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 160
ترغیب ہے۔ ‘‘
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے شخص کو سوال کرنے کی اجازت دی ہے۔ امام احمد نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ إِنَّ الْمَسْأَلَۃَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثٍ:ذِي دَمٍ مُوْجِعٍ، أَوْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ، أَوْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ۔ ‘‘[1]
’’ بلاشبہ تین قسم کے اشخاص میں سے کسی ایک کے علاوہ سوال کرنا جائز نہیں:اذیت ناک خون والے، [2] یا بھاری قرض والے، یا شدید فقر والے۔ ‘‘
مزید برآں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نادار مقروض میت کی نمازِ جنازہ خود پڑھانے کی بجائے حضراتِ صحابہ سے یہ فرمانا:
’’ صَلُّوْا عَلیٰ صَاحِبِکُمْ۔ ‘‘
’’ تم[ہی]اپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھو۔ ‘‘
اس میں بھی ضمنی طور عام لوگوں کو اس بات کی ترغیب ہے، کہ وہ اس کا قرض ادا کردیں، تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سے محروم نہ رہے۔ [3]
۲۔ اقارب کونادار میت کے قرض کی ادائیگی کی تلقین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی ثابت ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نادار میت کا قرضہ ادا کرنے کی رشتہ داروں کو پرزور ترغیب دی۔ حضراتِ ائمہ ابوداود الطیالسی، احمد،
[1] المسند، جزء من رقم الحدیث ۱۲۱۳۴، ۱۹؍ ۱۸۲۔ ۱۸۳۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے [شواہد کی بنا پر اس کو صحیح] کہا ہے۔(ملاحظہ ہو: ھامش المسند ۱۹؍ ۱۸۳)۔
[2] وہ قتل، کہ اس کی دیت کا ادا کرنا قاتل یا اس کے اولیاء کے بس میں نہ ہو۔
[3] حدیث کی تفصیل اور حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو اس کتاب کا صفحہ ۱۶۲۔