کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 152
علامہ عینی فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’ فِیْہِ الْکَفَالَۃُ عَنِ الْمَیِّتِ۔ ‘‘[1]
’’ اس[حدیث]میں میت کی طرف سے[ادائیگی قرض میں]ضامن ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ‘‘
بلاشک و شبہ ضمانت کی یہ تینوں صورتیں قرض کی واپسی میں مؤثر کردار ادا کرتی ہیں۔
(۲)
حوالہ ٔقرض
ادائیگی قرض کو ممکن بنانے کے لیے ایک شرعی تدبیر[حوالہ قرض]ہے۔ حافظ ابن
حجر نے اس کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے:
’’ وَھِيَ عِنْدَ الْفُقَہَائِ نَقْلُ دَیْنٍ مِنْ ذِمَّۃٍ إِلَی ذِمَّۃٍ۔ ‘‘[2]
’’ وہ فقہاء کے نزدیک قرض کو ایک شخص کی ذمہ داری سے دوسرے شخص کی ذمہ داری میں منتقل کرنا ہے۔ ‘‘
اس کی دلیل امام بخاری اور امام مسلم کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کردہ حدیث ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مَطْلٌ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُکُمْ عَلیٰ مَلِيٍئٍ فَلْیَتْبَعْ۔‘‘ [3]
’’ دولت مند کی طرف سے ٹال مٹول ظلم ہے، سو جب کسی کو دولت مند کے حوالے کیا جائے، تو وہ اس کو قبول کرے۔ ‘‘
حدیث کی شرح میں امام نووی نے تحریر کیا ہے:
[1] عمدۃ القاري ۱۲؍ ۱۱۳۔
[2] ۷۱ فتح الباري ۴؍ ۴۶۴۔
[3] صحیح البخاري، کتاب الحوالۃ، باب الحوالۃ، وَھَلْ یَرْجِعُ فِي الحوالہ، رقم الحدیث ۲۲۸۷، ۴؍ ۴۶۴؛وصحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب تحریم مطل الغني، وصحۃ الحوالۃ، واستحباب قبولھا إذا أحیل علی مَلِيئٍ، رقم الحدیث۳۳۔(۱۵۶۴)،۳؍۱۱۹۷۔