کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 149
اس نے عرض کیا:’’ ایک ماہ۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ ‘‘ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمائے ہوئے وقت پر آگیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا:’’ تم نے یہ[رقم]کہاں سے حاصل کی ہے؟ ‘‘ اس نے جواب دیا:’’ ایک کان سے۔ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس میں خیر نہیں۔ ‘‘ [1] پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے(قرض)اد اکر دیا۔ ‘‘[2] ج۔ مقروض کی وفات کے بعد: امام بخاری نے حضرت سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا، تاکہ آپ اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:’’ ھَلْ عَلَیْہِ مِنْ دَیْنٌ؟ ‘‘ ’’ کیا اس کے ذمے کوئی قرض ہے؟ ‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’ لَا۔ ‘‘ … ’’ نہیں!‘‘، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔
[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد [اس میں خیر نہیں] کے متعلق علامہ خطابی کے بیان کردہ احتمالات میں سے چار درج ذیل ہیں: ۱۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لائے ہوئے سونے کے بارے میں کسی ایسی بات کا علم ہو، کہ اس کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ۲۔کان والے کان سے نکلی ہوئی مٹی بیچتے ہیں، اس میں سونا چاندی کے نکلنے، نہ نکلنے اور نکلنے کی صورت میں اس کی مقدار کا قطعی علم نہ ہونے کی بنا پر غرر [دھوکا] کا امکان ہوتا ہے۔ ۳۔ خام سونے کا لین دین میں رواج نہیں ہوتا۔ لین دین میں ڈھالا ہوا سونا اور چاندی کام آتے ہیں۔ ۴۔ کانوں سے سونا چاندی نکالتے وقت انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ ہوتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔ (ملاحظہ ہو: معالم السنن ۳؍۵۴۔۵۵۔) [2] ملاحظہ ہو: بذل المجہود ۱۴؍۲۹۰۔