کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 143
’’ میرے بھائی فوت ہوئے اور تین سو دینار اور چھوٹے بچے چھوڑے۔ سو میں نے ان پر خرچ کرنے کا ارادہ کیا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قرض کی بنا پر تمہارا بھائی بند کیا گیا ہے، پس جاؤ اور اس سے[قرض]ادا کرو۔ ‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’ فَذَھَبْتُ، فَقَضَیْتُ عَنْہْ، ثُمَّ جِئْتُ، فَقُلْتُ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!قَدْ قَضَیْتُ عَنْہُ، وَلَمْ یَبْقَ إِلَّا امْرَأَۃٌ تَدَّعِيْ دِیْنَارَیْنِ، وَلَیْسَتْ لَھَا بَیِّنَۃٌ۔ ‘‘ ’’ میں نے جاکر ان کا قرضہ ادا کردیا، پھر میں نے واپس آکر عرض کیا:’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول!میں نے ان کا قرضہ ادا کردیا ہے، البتہ ایک عورت باقی ہے، جو کہ ان کے ذمے دو دینار بتلارہی ہے، لیکن اس کے پاس کوئی گواہی نہیں۔ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَعْطِھَا، فَإِنَّھَا صَادِقَۃٌ۔ ‘‘[1] ’’ اس کو ادا کردو، کیونکہ وہ سچی ہے۔ ‘‘
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۷۲۲۷، ۲۸؍ ۴۶۳ ؛ وسنن ابن ماجہ، أبواب الأحکام، أداء الدین عن المیت، ۲۴۸۵، ۲؍ ۶۱۔ حافظ بوصیری نے ابن ماجہ کی [سند کو صحیح] اور شیخ البانی نے حدیث کو [صحیح] کہا ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے بوصیری کی حدیث کو [صحیح] قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو: مصباح الزجاجۃ، رقم الحدیث ۸۶۱، ۲؍ ۴۸۔ ۴۹؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۲؍ ۵۷ ؛ وھامش المسند ۲۸؍ ۴۶۳)۔