کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 140
اس سلسلے میں امام بخاری تحریر کرتے ہیں: [بَابُ تَأْوِیْلِ قَوْلِہِ تَعَالی(مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ)وَیُذْکَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَضَیِ بِالدَّیْنِ قَبْلَ الْوَصِیَّۃِ، وَقَوْلِہِ عَزَّوَجَلَّ(إِنَّ اللّٰهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا)[1] فَأَداء الْأَمَانَۃ أَحَقُّ مِنْ تَطَوُّعِ الصَّدَقَۃِ][2] [اللہ تعالیٰ کے ارشاد[ترجمہ:(حصوں کی تقسیم)وصیت کے بعد، جو کہ وہ کرتا ہے اور قرض(کے بعد)]کی تفسیر کے متعلق باب اور منقول ہے، کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کو وصیت پر مقدم کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:[ترجمہ:بلاشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں، کہ امانتیں ان کے حق داروں کو ادا کرو۔]، تو امانت[قرض]کا ادا کرنا نفل وصیت[کے پورا کرنے]سے زیادہ ضروری ہے۔] امام ابوبکر جصاص لکھتے ہیں: ’’ وَھٰذَا لَا خَلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ ‘‘[3] ’’ اس بارے میں اہل اسلام میں کوئی خلاف نہیں۔ ‘‘ حافظ ابن کثیر نے تحریر کیا ہے: ’’ أَجْمَعُ الْعُلَمَائُ مِنَ السَّلَفِ وَالْخَلَفِ عَلَی أَنَّ الدَّیْنَ مُقَدَّمٌ عَلَی الْوَصِیَّۃِ۔ ‘‘[4] ’’ علمائے متقدمین اور متاخرین کا اس بات پر اجماع ہے، کہ قرض وصیت
[1] سورۃ النساء؍ جزء من الآیۃ ۵۸۔ [2] صحیح البخاري، کتاب الوصایا، ۵؍ ۳۷۷۔ [3] أحکام القرآن ۱؍ ۹۵۔ [4] تفسیر ابن کثیر ۱؍۴۹۹۔