کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 137
صدقہ، غلام آزاد کروانے کے لیے اور بطورِ ہبہ دیا ہوا مال]اس کو لوٹا دیا جائے گا، اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ[صدقہ وغیرہ کرکے قرض کی عدم ادائیگی سے]لوگوں کے مالوں کو ضائع کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو لوگوں کے مال برباد کرنے کی غرض سے لیتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو برباد کردیتے ہیں۔ ‘‘] صدقہ واپس کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں: ’’ لِأَنَّ قَضَائَ الدَّیْنِ وَاجِبٌ، وَالصَّدَقَۃُ تَطَوُّعٌ، وَمَنْ أَخَذَ دَیْنًا وَتَصَدَّقَ بِہِ، وَلَا یَجِدُ مَا یَقْضِيْ بِہِ الدَّیْنَ، فَقَدْ دَخَلَ تَحْتَ وَعِیْدٍ:’’ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ ……۔ ‘‘[1] ’’ کیونکہ قرض کی واپسی واجب ہے اور صدقہ کرنا نفلی کام ہے۔ سو جس شخص نے قرض لے کر صدقہ کیا اور اس کے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہیں، تو وہ اس وعید میں داخل ہوگیا:’’ جس نے لوگوں کے مالوں کولیا…‘‘ اسی بات کی ایک دلیل امام نسائی کی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کردہ روایت ہے، کہ: ’’ أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ غُلَامًا لَہُ عَنْ دُبُرٍ، وَکَانَ مُحْتَاجًا، وَکَانَ عَلَیْہِ دَیْنٌ، فَبَاعَہُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِثَمَانِ مِائَۃِ دِرْھَمٍ، فَأَعْطَاہُ، فَقَالَ:اقْضِ دَیْنَکَ۔ ‘‘[2]
[1] عمدۃ القاري ۸؍ ۱۹۳ ؛ نیز ملاحظہ ہو: فتح الباري ۳؍ ۲۹۴۔ [2] السنن الکبری، کتاب العتق والتدبیر، رقم الحدیث ۴۹۸۵، ۵؍ ۴۴۔ امام بخاری نے اس حدیث کو مختصر طور پر روایت کیا ہے، البتہ ان کی روایت میں یہ نہیں کہ [اس کے ذمے قرض تھا]۔(ملاحظہ ہو: صحیح البخاري، کتاب الاستقراض، رقم الحدیث ۲۴۰۳، ۵؍ ۶۵)۔ البتہ اس پر انہوں نے یہ عنوان تحریر کیا ہے: [بَابُ مَنْ بَاعَ مَالَ الْمُفْلِسِ أَوِ الْمُعْدِم فَقَسَمَہُ عَلَی الْغُرَمَائِ أَوْ أَعْطَاہُ حَتَّی یُنْفِقَ عَلیٰ نَفْسِہِ] [ اس بارے میں باب، کہ دیوالیہ یا محتاج کا مال بیچ کر قرض خواہوں میں تقسیم کرنا یا اس کو دینا، تاکہ وہ اپنی ذات پر خرچ کرے ]۔ حافظ ابن حجر نے امام بخاری کی روایت کردہ حدیث شریف کی شرح میں لکھا ہے کہ نسائی وغیرہ کی روایت کردہ حدیث میں یہ بات ثابت ہے، کہ اس کے ذمے قرض تھا۔(ملاحظہ ہو: فتح الباری ۵؍ ۶۶)۔