کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 134
علامہ صنعانی مزید لکھتے ہیں: ’’ ھٰذَا وَقَدْ حَکَمَ عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ فِیْ أَسُیْفِع جُھَیْنَۃ کَحُکْمِہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فِيْ مُعَاذٍ رضی اللّٰه عنہ۔ ‘‘[1] ’’ علاوہ ازیں عمر رضی اللہ عنہ نے جہینہ قبیلہ کے اسیفع نامی شخص کے متعلق اسی طرح فیصلہ کیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا۔ ‘‘ ۲: امام مالک نے عبدالرحمن بن دلاف مزنی سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’ بلاشبہ جہینہ[قبیلہ]کا ایک شخص حاجیوں پر سبقت لینے کی غرض سے[2] گراں قیمت میں سواریاں خریدتا تھا، پھر وہ ان پر تیز رفتاری سے آتا اور حجاج پر سبقت لے جاتا۔ وہ[اسی شوق کو پورا کرتے کرتے]مفلس ہوگیا، تو اس کا معاملہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے روبرو پیش کیا گیا، تو انہوں نے فرمایا: ’’ أَمَّا بَعْدُ!أَیُّھَا النَّاسُ!فَإِنَّ الْأُسَیْفِعَ، أُسَیْفِعَ جُھَیْنَۃَ، رَضِيَ مِنْ دِیْنِہِ وَأَمَانَتِہِ بِأَنْ یُقَالَ:’’ سَبَقَ الْحَاجَّ۔‘‘ أَ لَا!وَإِنَّہُ قَدْ دَانَ مُعْرِضًا، فَأَصْبَحَ قَدْرِیْنَ بِہِ۔ فَمَنْ کَانَ لَہُ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَلْیَأْتِنَا بِالْغَدَاۃِ، نَقْسِمُ مَالَہُ بَیْنَھُمْ۔ وَإِیَّاکُمْ وَالدَّیْنَ، فَإِنَّ أَوَّلَہُ ھَمٌّ، وَآخِرُہُ حَرْبٌ۔ ‘‘[3] ’’ أما بعد، اے لوگو!بے شک اُسیفع، جو کہ جہینہ قبیلہ کا اُسیفع ہے، اپنے دین و امانت کو اس بنا پر برباد کرنے پر راضی ہوگیا، کہ کہا جائے:’’کہ وہ حاجیوں پر سبقت لے گیا۔ ‘‘ خبردار!بلاشبہ وہ قرض پر خریداری تو کرتا رہا، لیکن ادائیگی سے اعراض کرتا
[1] سبل السلام ۳؍ ۱۰۶۔ [2] یعنی حج کے اعمال میں دوسرے حاجیوں سے پہلے فارغ ہونے کی خاطر۔ [3] الموطأ، کتاب الوصیۃ، باب جامع القضاء وکراہیتہ، رقم الروایۃ ۸، ۲؍ ۷۷۰۔