کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 131
’’ شریعت اسلامیہ میں کسی انسان کو اپنے مال میں تصرف سے روکنے کا نام[الحَجَر]ہے۔ ‘‘ اسی سلسلے میں امام نووی رقم طراز ہیں: ’’ مَنْ عَلَیْہِ دُیُوْنٌ حَالَۃٌ زَائِدَۃٌ عَلَی مَالِہِ یُحْجَرُ عَلَیْہِ بِسُؤَال غُرَمَائِہِ۔ ‘‘[1] ’’ جس شخص پر واجب الذمہ قرضہ جات اس کے مال سے زیادہ ہوں،[تو]قرض خواہ کی درخواست پر(اس کو اپنے مال کے استعمال سے)روک دیا جاتا ہے۔ ‘‘ [اَلْحَجْر]کی دو دلیلیں: اس بارے میں ذیل میں دو دلیلیں ملاحظہ فرمائیے: ۱: امام حاکم اورامام دارقطنی نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم حَجَرَ عَلَی مُعَاذٍ رضی اللّٰه عنہ مَالَہُ، وَبَاعَہَ فِيْ دَیْنٍ کَانَ عَلَیْہِ۔ ‘‘[2]
[1] المنہاج ۲؍ ۱۴۶۔ [2] المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، ۲؍ ۵۸ ؛ والسنن الکبری، کتاب التفلیس، باب الحجر علی المفلس وبیع مالہ في دیوانہ، ۶؍ ۴۸۔ امام حاکم نے اس کو [صحیحین کی شرط پر صحیح] قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔(ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۲؍ ۵۸ ؛ والتلخیص ۲؍ ۵۸۔ ۵۹)۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’ دارِ قطنی نے اسے روایت کیا ہے، حاکم نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے اور ابو داؤد نے اسے [مرسل] روایت کیا ہے اور اس کے مرسل ہونے کو قابل ترجیح ٹھہرایا ہے۔(بلوغ المرام ص ۱۱۵)۔ حافظ ابن الصلاح نے لکھا ہے: ’’ یہ حدیث ثابت ہے۔ ‘‘(منقول از سبل السلام ۳؍ ۱۰۵) ؛نیز ملاحظہ ہو: سیر أعلام النبلاء ۱؍ ۴۵۳۔ ۴۵۴۔