کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 130
گا۔ اگر اس نے ایسا کیا تو بہتر، وگرنہ حاکم جیسا مناسب سمجھے گا:فروخت کرنے پر مجبور کرنے کی خاطر اس کو گرفتار کرے گایا سزا دے گایا خود یا اپنے نمائندے کی وساطت سے اس چیز کو فروخت کروادے گا۔ امام شافعی کی بھی یہی رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ حاکم اس کو فروخت نہیں کرے گا۔ کیونکہ حاکم کی ولایت اس پر ہے، اس کے مال پر نہیں۔ اس لیے اس کی اجازت کے بغیر حاکم کی طرف سے فروختگی معتبر نہ ہوگی اور ہماری دلیل یہ ہے، کہ اس پر حق کی ادائیگی واضح طور پر لازم ہوچکی ہے۔ اب ادائیگی سے گریز اور فرار کی صورت میں حاکم اس کی نیابت کرتے ہوئے، اس کی طرف سے ادا کرے گا، جس طرح کہ وہ[رہن]لی ہوئی چیز سے، اس کی نیابت کرتے ہوئے قرض کو ادا کرتا ہے۔ ‘‘ میری ناقص رائے میں امام شافعی اور امام احمد ہی کی رائے درست ہے، کیونکہ اگر مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر حاکم یا قرض خواہ گروی شدہ چیز فروخت کرنے کا مجاز نہ ہو، تو پھرگروی رکھنے کا مقصد کیا باقی رہ جائے گا؟ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ (۳) اپنے مال کے استعمال سے محرومی جس شخص کے واجب الذمہ قرضہ جات اس کی مالی حیثیت سے تجاوز کرجائیں، تو اسلامی عدالت خود ہی یا قرض خواہوں کے مطالبے پر مقروض کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دیتی ہے۔ اسلامی فقہ میں اس کا نام[اَلْحَجْر]ہے۔ امام ابن قدامہ لکھتے ہیں: ’’ اَلْحَجْرُ ھُوَ فِيْ الشَّرِیْعَۃِ الْاِسْلَامِیَّۃِ مَنْعُ الإِْنْسَانِ مِنَ التَّصَرُفِ فِيْ مَالِہِ۔ ‘‘[1]
[1] المغني ۴؍ ۵۰۵۔