کتاب: قرض کے فضائل ومسائل - صفحہ 129
ثَمَنِہِ فِلمَا لِکِہِ، وَإِنْ فَضَلَ مِنَ الدَّیْنِ شَيْئٌ فَعَلَی الرَّاھِنِ۔ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ أَذِنَ لَھُمَا فِيْ بَیْعِہِ، أَوْ کَانَ قَدْ أَذِنَ لَھُمَا، ثُمَّ عَزَلَھُمَا، طُوْلِبَ بِالْوَفَائِ أَوْ بَیْعِ الرَّھْنِ۔ فَإِنْ فَعَلَ، وَإِلَّا فَعَلَ الْحَاکِمُ مَایَرَیَ مِنْ حَبْسِہِ، وَتَعْزِیْرِہِ لِبَیْعِہِ، أَوْ یَبِیْعُہُ بِنَفْسِہِ، أَوْ أَمَیْنِہِ۔ وَبِھٰذَا قَالَ الشَّافعِيِّ۔ وَقَالَ أَبُوْ حَنِیْفَۃَ:’’ لاَ یَبِیْعُہُ الْحَاکِمُ ؛ لِأَنَّ وِلَایَۃَ الْحَاکِمِ عَلیٰ مَنْ عَلَیْہِ الْحَقُّ، لَا عَلیٰ مَالِہِ، فَلَمْ یَنْفُذْ بَیْعُہُ بِغَیْرِ إِذْنِہِ۔‘‘ وَلَنَا:أَنَّہُ حَقٌّ تَعَیَّنَ عَلَیْہِ، فَإِذَا امْتَنَعَ مِنْ أَدَائِہِ، قَامَ الْحَاکِمُ مَقَامَہُ فِيْ أَدَائِہِ کَالْاِیْفَائِ مِنْ جِنْسِ الدَّیْنِ۔ ‘‘[1] ’’ جب قرض کی واپسی کا وقت ہوگا، تو رہن رکھوانے والا دیگر مقروضوں کی طرح بروقت ادائیگی کا پابند ہوگا، کیونکہ وہ واجب الذمہ قرض ہے۔ اگر وہ قرض ادا نہیں کرتا اور اس نے قرض خواہ یا کسی عادل شخص کو گروی شدہ چیز فروخت کرنے کا حق دے رکھا ہو، تو اس چیز کو فروخت کردیا جائے گا۔ قرض خواہ اپنی رقم لے لے گا۔ اگر حاصل شدہ رقم سے[قرض کی ادائیگی کے بعد]کچھ رقم بچی، تو وہ مقروض کو دے دی جائے گی اور اگر[رہن شدہ چیز فروخت کرنے کے باوجود]قرض میں سے کچھ رقم کم ہوئی، تو وہ مقروض کے ذمہ رہے گی۔ اگر مقروض نے فروختگی کی اجازت قرض خواہ یا منصف کو نہ دی ہو، یا اس نے اجازت دینے کے بعد ان سے یہ حق واپس لے لیا ہو، تو اس سے واپسی قرض یا گروی شدہ چیز(دونوں میں سے ایک)کا مطالبہ کیا جائے
[1] المغني ۶؍ ۵۳۱ ؛ نیز ملاحظہ ہو: فقہ السنہ ۳؍ ۱۵۹۔